ریاض اسلامی کانفرنس میں وزیراعظم کا انشی ایٹو
وزیراعظم نواز شریف ریاض میں اسلامی کانفرنس سے خطاب کریں گے اور شاہ سلمان اور دیگر مسلم رہنماﺅں سے ملاقاتیں کریں گے۔ اس کانفرنس کی اہم بات امریکی صدر ڈنلڈ ٹرمپ کا خطاب بھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بننے کے بعد پہلا غیر ملکی دورہ کر رہے ہیں جس میں وہ سعودی عرب کے علاوہ اسرائیل اور ویٹی کن بھی جائیں گے ۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اکتالیس مسلم ممالک کا جو ملٹری الائنس بنا ہے، اس کی سربراہی پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کر رہے ہیں۔ اس لحاظ سے اگلے چند روز سعودی عرب پوری دنیا کی نگاہوں کا مرکز بنا رہے گا۔ بیس سے زائد مسلمان ممالک کے لیڈرز کانفرنس سے خطاب کریں گے۔ یہ کانفرنس امریکہ اور مسلم دنیا کے درمیان تعلقات کے نئے باب کھولے گی۔ یہ تعلقات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، اس کا سارا دارومدار ٹرمپ کے خطاب پر ہے۔ فی الوقت سعودی عرب عالمی اسلامی اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوشش میں ہے تاکہ مڈل ایسٹ کے درجنوں ممالک میں گزشتہ کئی عشروں سے جاری تناﺅ اور انتشار کو ختم نہیں تو کسی حد تک کم کیا جا سکے۔ داعش کا زور توڑنے کے لئے نئی حکمت عملی بھی سامنے آنے کا امکان ہے کیونکہ اسے اگر یہیں روکا نہ گیا تو یہ اپنا دائرہ کار مغربی ممالک تک پھیلا سکتی ہے۔ یورپی ممالک میں ہونے والے بعض واقعات اور دہشت گردی میں داعش ملوث نظر آئی۔ اس خطرے کے توڑ کے لئے اس اجلاس میں غور کیا جائے گا۔
پاکستان دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے اپنا ہر ممکن کردار ادا کر رہا ہے۔ سعودی عرب کی سرزمین اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کے لئے ہر مسلمان جان نچھاور کرنے کو تیار ہے۔ پاک سعودی تعلقات ہمیشہ سے خوشگوار رہے ہیں اور سعودی حکومت کی خواہش پر جنرل راحیل شریف اسلامی ممالک کے الائنس کے لئے سربراہی کا چارج سنبھال چکے ہیں۔ وہ رکن ممالک کے ساتھ مل کر ایسا مربوط نظام بنائیں گے جس میں ممالک کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ اور ان ممالک کی افواج کی ٹریننگ بھی شامل ہے۔ داعش کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے اور اسے جڑوں سے ختم کرنے کے لئے سٹریٹیجی بنا کر مڈل ایسٹ کو اس عفریت سے ہمیشہ کے لئے نجات دلانے کی کوشش بھی کی جائے گی۔ پاکستان میں انہوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے جو اقدامات کئے، ان کی افادیت آج سب کے سامنے ہے۔ ضرب عضب آپریشن کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہوئے اور شمالی وزیرستان جو دہشت گردوں کی جنت تھا، آج وہاں امن کی فاختائیں اڑتی نظر آتی ہیں۔ جو سکول دھماکوں سے اڑائے جاتے تھے وہ آباد ہو چکے ہیں۔ آئی ڈی پیز بھی اپنے علاقوں میں واپس آ چکے۔ امن کے قیام کا کریڈٹ جتنا ملٹری کو جاتا ہے اتنا ہی اس کا سہرا سول حکومت کے سر ہے کیونکہ کسی بھی جمہوری دور میں کوئی بھی جنگ سول حکومت کے تعاون کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔
وزیراعظم نواز شریف اس کانفرنس میں خصوصی توجہ کا مرکز ہوں گے کیونکہ اس کانفرنس کا مرکزی موضوع دہشت گردی کا خاتمہ ہو گا اور پاکستان دہشت گردی کیخلاف ہراول دستے کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس لئے وزیر اعظم کی کوشش ہو گی کہ اس کانفرنس سے مثبت نتائج حاصل کئے جائیں جو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لئے سود مند ہوں۔
اسلامی کانفرنس کا یہ اجلاس تاریخی طور پر کسی ایجنڈے کی وجہ سے تیسرا اجلاس ہے، پہلا اجلاس مراکش کے شہر کانسابلانکا میں ہوا جس میں مسجد اقصیٰ کے خلاف یہودیوں کی دہشت گردی اور اسے نذر آتش کرنے پر احتجاج کیا گیا۔ مراکش کانفرنس میں ایک مرحلہ ایسا آیا جس میں یحییٰ خان نے اپنے وفد کو واپسی کا حکم دے دیا تھا کیونکہ اس اجلاس میں بھارت کو بھی مدعو کر لیا گیا تھا۔ یحییٰ خان نے اس کے خلاف شدید احتجاج کیا اور بائیکاٹ کی دھمکی دی جس پر بھارتی مندوب کو بیک بنی ودو گوش نکال باہر کیا گیا، اسلا می کانفرنس کا دوسرا تاریخی اجلاس لاہور میں منعقد ہوا جس میں بھٹو صاحب نے میزبانی کے فرائض ادا کئے اور اس میں پوری اسلامی دنیا کے حکمران شریک تھے۔ بادشاہی مسجد میںنماز جمعہ کے دروان شاہ فیصل کی آنکھوں سے اس وقت آٓنسو بہہ نکلے جب کشمیر اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کا ذکر کیا گیا، پی ٹی وی کے کیمرے نے یہ آنسو بہتے دکھائے۔ لاہور سمٹ ایک کامیاب اجلاس ثابت ہوئی۔
اسلامی کانفرنس ایک بہت بڑا پلیٹ فارم ہے مگر مسلم دنیا کے مابین فکری اور نظریاتی انتشار کی وجہ سے اس کا وجود بے سود ہے، اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ مگر اب سعودی عرب نے مقصدیت پیدا کر کے اس میں نئی جان ڈال دی ہے۔ بلاشبہ سعودی عرب مسلم امہ کا مسلمہ لیڈر ہے اور اس کو حرمین شریفین کی وجہ سے تقدس کا درجہ بھی حاصل ہے۔ وہ اسلامی ممالک کی بے دریغ امداد کرتا ہے، برماکے مسلمانوں کے لئے اس نے جرا¿ت مندی کا مظاہرہ کیا، افغان مہاجرین کی امداد میں بھی وہ پیش پیش رہا۔ پاکستان کی عسکری قوت میں اضافے کے لئے سعودی عرب نے خزانوں کے منہ کھول دیئے تھے۔ پاکستان آج عالم اسلام کا قلعہ ہے تو اس کے پیچھے سعودیہ کا سرگرم کردار ہے۔ اب مسلم دنیا کو دہشت گردی کا مسئلہ درپیش ہوا ہے تو بھی سعودیہ نے کمان اپنے ہاتھ میں لے لی ہے اور اس مسئلے پر خصوصی اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں دہشت گردی کی جنگ کا مین پارٹنر امریکہ بھی مدعو ہے، ٹرمپ صاحب ریاض پہنچ چکے ہیں۔ اور سب نظریں اس دورے کے نتائج پر مرکوز ہیں۔ بہرحال عالم اسلام کو امریکہ سے صرف ا نٹیلی جنس شیئرنگ درکار ہے، ورنہ عالم اسلام اس عزم سے سرشار ہے کہ وہ اپنی صفوں سے دہشت گردوں کا صفایا کر کے رہے گا۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ حسن اتفاق ہے کہ وزیراعظم نواز شریف اور سعودہی شاہی خاندان میں قربت کارشتہ ہے اور اسی رشتے کو نبھاتے ہوئے وزیراعظم نے پاکستان کا بہترین سپاہ سالار سعودی عرب کو دیا ہے۔ جنرل راحیل شریف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ وزیراعظم نے افواج پاکستان کی بھرپور تائید کی اور نیشنل ایکشن پلان کے پیچھے پوری قوم کو کھڑا کر دیا، اس طرح جنرل راحیل نے وہ ناممکن کام کر دکھایا جس کے سامنے امریکی اور نیٹو افواج عاجز آ چکی تھیں، اب وزیراعظم نے اینسی ایٹو لے لیا ہے اور عالام اسلام کو دہشت گردی کے فتنے سے پاک کرنے کے لےئے عرب اتحاد کی مشترکہ کمان کے لئے جنرل راحیل کا عہدہ سنبھالنے کی منظوری دی ہے، اس طرح امید پیدا ہو چلی ہے کہ مشترکہ وسائل کی مدد سے مسلم امہ دہشت گردی سے مکمل نجات حاصل کر نے میںکامیاب ٹھہرے گی اور اس کا سہرا پاکستان کے سر ہو گا۔ جو اس جنگ کے لئے باقی دنیا کے لئے رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔