جے آئی ٹی ہر صورت 60 روز میں تحقیقات مکمل کرے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں+ بی بی سی) سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے فیصلے کے تحت عملدرآمد کے حوالے سے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی سے متعلق کیس کی سماعت میں تحقیقاتی ٹیم نے اپنی پہلی پندرہ روزہ رپورٹ عدالت میں جمع کروادی ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی پیشرفت کا جائزہ لینے کیلئے جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے سماعت کی تومشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ اور ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا ء نے اب تک کی جانے والی تحقیقات کے حوالے سے سربمہر رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ بنچ کے تینوں ججوں نے عدالت کے اندر ہی رپورٹ کا سرسری جائزہ لیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ ہم نے رپورٹ دیکھی ہے اور ہم اس سے غیر مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے جے آئی ٹی کے سربراہ سے کہا کہ اگر آپ کو تحقیقات کے حوالے سے کوئی مسئلہ درپیش ہو یا کوئی ادارہ آپ سے تعاون نہیں کر رہا تو آپ عدالت کو آگاہ کریں،عدالت کو اپنے احکامات پر عمل کرانا آتا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے جے آئی ٹی کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کو تحقیقات کیلئے 60 دن دئیے گئے ہیں، آپ نے اپنا کام مقررہ مدت میں مکمل کرنا ہے ۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو کسی صورت میں اضافی وقت نہیں دیا جائیگا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم کے کام کے راستے مٰیں کسی قسم کی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائیگی۔ کمیٹی اپنا کام مقررہ وقت میں پورا کرے اور ہر صورت میں 60 روز میں تحقیقات مکمل کرے۔تحریک انصاف کے فواد چوہدری نے استدعا کی کہ انہیں رپورٹ کی کاپی فراہم کرنے کا حکم جاری کیا جائے۔ جسٹس اعجاز افضل نے انکی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قانون سے ہٹ کر کارروائی نہیں کریں گے۔ آپ ہمیں بتا ئیں کہ قانون کی کس شق کے تحت ہم آپ کو تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ پیش کر سکتے ہیں، کوئی ایسا فوجداری کیس بتادیں جس میں دوران تفتیش دستایزات فریقین کودی گئی ہو، ہم قانون کو شہرت کےلئے استعمال نہیںکرتے،ہم قانون کے مطابق چلیں گے ،بعدازاںعدالت نے رپورٹ کا ابتدائی جائزہ لینے کے بعد سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔ بی بی سی کے مطابق فواد چوہدری نے عدالت سے استدعا کی کہ اس تحقیقاتی ٹیم کو حکم دیا جائے کہ وہ پندرہ روز ہونے والی تحقیقات کے بارے میں انھیں آگاہ کریں کیونکہ ان کی جماعت پاناما لیکس کے معاملے میں فریق ہے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سے استفسار کیا کہ ضابطہ فوجداری یا پولیس رولز میں ایسی کوئی شق بتا دیں جس میں کسی مقدمے کا تفتیشی افسر تحقیقات میں ہونے والی پیش رفت یا معلومات فریقین کے علم میں لاتا ہو۔ پاکستان تحریک انصاف کے وکیل اسکا کوئی جواب نہ دے سکے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ عدالت نے قانون کے مطابق چلنا ہے اور قانون میں ایسی معلومات کے تبادلے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بینچ میں شامل جسٹس عظمت سعید نے پاکستان تحریک انصاف کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ ا±ن کی طرف سے معلومات حاصل کرنے کے مطالبے سے کوئی دوسرا فریق فائدہ ا±ٹھالے۔کمرہ عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان‘ جہانگیر ترین‘ نعیم الحق اور فواد چودھری موجود تھے۔ جسٹس عظمت سعید نے جے آئی ٹی سربراہ سے کہا کہ ہم غیر مطمئن نہیں آپ درست سمت میں جارہے ہیں ۔ میں آپ پر اور آپ کی ٹیم پر اعتماد ہے ۔ وکیل پی ٹی آئی فواد چودھری نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ کی کاپی ہمیں دی جائے۔ جسٹس عظمت شیخ نے ان سے سوال کیا آیا دوسری سائیڈ کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں؟ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ کارروائی 60 روز کی مقررہ مدت میں مکمل کرنی ہے، یہ عدالتی فیصلہ ہے۔ عدالت نے پی ٹی آئی کی رپورٹ شیئر کرنے کی درخواست مسترد کردی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ضابطہ فوجداری کے کسی قانون کا حوالہ دیں کہ رپورٹ پبلک کریں؟جسٹس عظمت شیخ نے کہا کہ رپورٹ وقت آنے پر سامنے آجائے گی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ہدایت کی کہ تحقیقاتی کام صاف و شفاف انداز میں کیا جائے۔ فواد چودھری نے کہا کہ پانامہ لیکس ہمارا ذاتی کیس نہیں ہے۔ ہر شہری جاننا چاہتا ہے کہ تحقیقات میں کیا ہورہا ہے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ لوگوں کو حقائق پسند کریں گے مگر مناسب وقت پر ہم نے قانون کے مطابق چلنا ہے جسٹس عظمت سعید نے فواد چودھری سے کہا کہ تفتیش کو خراب نہ کریں۔ نجی ٹی وی کے مطابق جے آئی ٹی نے 13 روز میں حدیبیہ پیپر ملز کیس کا ریکارڈ دیکھا۔ جے آئی ٹی نے وزیراعظم اور کیپٹن صفدر کے اثاثوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا ۔
اسلام آباد (اے پی پی) مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس کیس میں وزیراعظم محمد نواز شریف نے اپنے ‘ اپنی بیٹی اور بیرون ملک مقیم بیٹوں کے حوالے سے جو حقوق چھوڑے تھے وہ تمام حقوق جے آئی ٹی میں استعمال کرنے کا حق رکھتے ہیں‘ ہم نے جے آئی ٹی سے متعلق حقائق اور تحفظات سپر یم کورٹ میں داخل کر دیئے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ جے آئی ٹی وزیراعظم محمد نواز شریف کو بھی اسی قانون کی نظر سے دیکھے گی جس نظر سے باقیوں کو دیکھا جاتا ہے‘ نیا سوٹ اور عینک پہن کر جس طرح عمران خان سپریم کورٹ آئے ہیں امید ہے ویسے ہی آج غیر ملکی فنڈنگ کیس کی سماعت پر ایسے ہی تیار ہوکر حاضر ہونگے‘ عمران خان کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتے، ان کی اخلاقی کرپشن پر امریکی عدالت سے، فنانشل کرپشن کا سرٹیفکیٹ پاکستان کی عدالت سے جاری ہوگا۔ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنما مسلم لیگ ن طلال چوہدری نے کہا کہ آج سب نے دیکھا کہ عمران خان عینک لگا کراور نیا سوٹ پہن کر ایسے آئے ہیں جیسے کسی میلے میں جاتے ہیں‘ وہ جیسے آج سپریم کورٹ آئے ہیں امید ہے کہ کل بھی ویسے ہی آئیں گے کیونکہ کل ان کی تلاشی کا دن ہے۔ عمران خان کے جھوٹے الزاما ت پر وزیر اعظم نوازشریف اپنے مرحوم والد اور تینوں نسلوں کا حساب دے چکے ہیں۔ عمران خان سے تو غیر ملکی فنڈنگ کا پوچھا گیا ہے کہ ناجائز پیسے کہاں خرچ کیے ہیں ۔ عمران خان کا ٹریک ریکارڈ تو یہ ہے کہ انکے خلاف جب بھی کسی بھی کیس کی تاریخ ہوتی ہے تو وہ پیشی اور راستہ دونوں بھول جاتے ہیں۔ عمران خان آج بھی سپریم کورٹ کے احترام میں نہیں بلکہ دباﺅ ڈالنے کے لئے آئے تھے ‘وہ اپنی سیاسی حیثیت دکھا کر اپنے سیاسی و ذاتی مقاصد اور شریف فیملی کے خلاف بغض نکالنے کے لئے آئے تھے۔ آج سپریم کورٹ پر دباﺅ ڈالنے کی کوشش کی گئی ‘پی ٹی آئی کا نمائندہ عدالت میں کھڑا ہوا تو عدالت نے سوالات اٹھائے مگر اسکے منہ سے قانون اور اخلاقیات کی ایک بات نہیں نکلی‘ ہمارا پی ٹی آئی کو مشورہ ہے کہ ایسا کام نہ کریں جس کا جواب نہ ہو ۔ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس میں جو فیصلہ دیا وہ ہماری قیادت نے من و عن قبول کیا اور آج فیصلہ عمل درآمد کے مرحلے میں ہے ‘ یہ کہا جارہا تھا کہ جے آئی ٹی پر حکومت دباﺅ ڈال سکتی ہے لیکن وہ بھی غلط ثابت ہوا‘ جے آئی ٹی مکمل آزادی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ جے آئی ٹی اوراسکے کام سے متعلق حقائق اور تحفظات سپر یم کورٹ میں دیدیئے ہیں، ہم جے آئی ٹی کے معاملے کو پبلک نہیں کررہے نہ ہی میڈیا کے ذریعے کسی کی تذلیل کرنا چاہیے ہیں‘ہم ہمیشہ اداروں کی عزت کا باعث بنے ہیں۔ عمران خان کبھی اچھی بھی بات کریں‘ عرب اسلامی کانفرنس میں نوازشریف کو ملنے والی عزت پاکستان کی عزت ہے ‘عمران خان ذاتی دشمنی میں ملکی دشمنی تک پہنچ چکے ہیں۔ عمران خان کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتے، ان کی اخلاقی کرپشن پر امریکی عدالت سے جبکہ فنانشل کرپشن کا سرٹیفکیٹ پاکستان کی عدالت سے جاری ہوگا۔
طلال چودھری