غیر ملکی فنڈنگ کیس: عمران نے الیکشن کمشن میں جواب جمع نہ کرایا‘ سماعت غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنے کی درخواست مسترد
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں عمران خان اور جہانگیرترین کے خلاف اثاثے چھپانے، غیر ملکی فنڈنگ، آف شور کمپنیوں کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے قرار دیا کہ حیرت کی بات ہے کہ اب تحریک انصاف سپریم کورٹ اور الیکشن کمشن کے دائرہ اختیارات کے حوالے سے سوال اٹھارہی ہے؟ چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے استفسار کیا کہ عدالت نے فارن فنڈنگ کا معاملہ الیکشن کمشن کو بھیجنے کی تجویز دی تھی عدالت کو بتایا جائے کہ کیا آپ نے اپنے موکل سے اس حوالے سے ہدایات لے لی ہیں تو وکیل نے موقف اپنایا کہ موجودہ پیٹیشن آئین کے آرٹیکل (3) 184 کے تحت قابل سماعت ہی نہیں، کیونکہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے تحت اگر کسی سیاسی جماعت پر غیرملکی فنڈز حاصل کرنے کا الزام عائد کیا جائے یا کسی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے فنڈز کی وصولی ثابت ہوجائے تو صرف وفاقی حکومت ہی پندرہ روز کے اندر اس حوالے سے سپریم کورٹ میں ریفرنس دائر کرسکتی ہے، جس پر عدالت کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے الیکشن کمشن کو فارن فنڈنگ کی تحقیقات کیلئے کسی کیس کو دوبارہ کھولنے یا فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا اختیار حاصل نہیں، چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کسی مقدمہ کو دوبارہ کھولنے یا نظرثانی کا سوال تو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کیس کا پہلے فیصلہ ہو چکا ہو، یہاں تو کیس ابھی زیرسماعت ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے ان سے کہا کہ وہ عدالت کو بتائیں کہ قانون میں الیکشن کمشن کا اختیار ختم ہونے کا کہاں ذکر کیا گیا ہے، پی ٹی آئی کے وکیل نے بتایاکہ وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب گوشواروں پر جانچ پڑتال کے دوران سوال نہ اٹھے اس پر بعد میں کوئی سوال نہیں اٹھایا جاسکتا، اس لئے میرا موقف ہے کہ الیکشن کمشن کو فارن فنڈنگ کیلئے کیس دوبارہ کھولنے یا اس پر نظر ثانی کرنے کا اختیار حاصل نہیں، چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سال گزرنے کے بعد الیکشن کمشن سابقہ فارن فنڈنگ کے بارے میں کوئی سوال نہیں اٹھا سکتا یا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ فارن فنڈنگ کا تعین کرنے کیلئے الیکشن کمیشن ہی صیح اتھارٹی ہے، کیونکہ الیکشن تو ہر پانچ سال بعد ہوتے ہیں، ہمیں بتایا جائے کہ کیا ساڑھے چار سال کے دوران شکایت کی صورت میں الیکشن کمشن تحقیقات کا اختیار نہیں رکھتا، فاضل وکیل نے جواب دیا کہ گوشوارے ہرسال جمع ہوتے ہیں جن میں اکائونٹس کی تفصیلات بھی ہوتی ہیں، سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشن کو انتخابات کے انعقاد کے ساتھ فنڈنگ کی تحقیقات کرنے کا بھی اختیار ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ حیرت ہے کہ جو سیاسی جماعت غیر ملکی فنڈنگ بھی نہیں لے رہی وہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمشن کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا رہی ہے، جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ کہ یہ ضروری نہیں کہ کوئی سیاسی جماعت غیر ملکی فنڈنگ کو اپنے اکائونٹس میں ظاہر کرے، عمران خان کے وکیل نے عدالت سے کہاکہ اگر سپریم کورٹ غیرملکی فنڈنگ کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانا چاہے تو ہم تیار ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ وہ ایک سیاسی جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس لئے اس طرح کا کوئی بھی بیان اپنے موکل سے ہدایات لیکر دیں، اگر عدالت الیکشن کمشن کو ہی کمشن کا درجہ دے دے تو شاید آپ کو اس پر بھی اعتراض نہیں ہو گا، فاضل وکیل نے کہاکہ بے شک عدالت معاملے کی پڑتال کیلئے کمشن بنا دے، ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ آخر کمیشن کیوں بنایا جائے، معاملہ الیکشن کمشن کو کیوں نہ بھجوایا جائے، عدالت کو تحریک انصاف کے وکیل نے کہاکہ عمران خان کی جانب سے جواب میں اس لئے تاخیر ہوئی کہ جس بنک سے عمران خان نے جمائمہ کو رقم منتقل کی اس کا سرٹیفکیٹ کل آیا ہے اس لئے درگزر کیا جائے۔ دوسری جانب عمران خان نے مبینہ طورپر اثاثے چھپانے کے الزام کے تحت ان کی نااہلی کے زیرسماعت مقدمہ میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے 1971ء سے 1982ء تک بیرون ملک کرکٹ کھیل کر رقم کمائی اور جو کچھ بھی کمایا اس کے تمام ٹیکس ادا کیے، بعدازاں اسی رقم سے 1983ء میں ایک بیڈ روم پر مشتمل فلیٹ خریدا، نیازی سروسز لمیٹد کا صرف ایک فلیٹ ہے، جب برطانوی فلیٹ فروخت کیا گیا اس وقت میں وہاں کا رہائشی نہیں تھا، اسی لئے ٹیکس ادا نہیں کیا، میں نے 1995ء میں جمائمہ سے شادی کی، جواب میں یہ بھی کہا گیاکہ برطانوی قانون کے مطابق طلاق کے وقت مشترکہ اثاثے برابر تقسیم ہوتے ہیں، تاہم شرعی قانون کے تحت سابقہ شوہر سابقہ بیوی کے اثاثوں کا حق نہیں رکھتا، جس کے پیش نظر میں نے طلاق کے بعد سابقہ بیوی سے اثاثے لینے سے انکار کیا، جمائمہ نے بنی گالہ کی جائیداد اپنے اور بچوں کیلئے خریدی،2000ء میں ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا نوٹس جاری کیا گیا، اور مجھے لندن فلیٹ ظاہر کرنے کی ہدایت کی گئی، میں نے جائیداد پر عائد ٹیکس ادا کیا ،2002ء کے انتخابات میں میں نے کاغذات نامزدگی میں 65 لاکھ ایڈوانس ظاہر کیا۔ بیوی سے لی گئی ادھار رقم فلیٹ فروخت کرکے واپس کی، جو میرے دوست راشد خان نے جمائمہ کے نجی بینک اکائونٹ میں جمع کرائی، میں نے 5 لاکھ 62 ہزار پائونڈز بینک کے ذریعے جمائمہ کو منتقل کیے، اور فلیٹ کی فروخت سے حاصل شدہ رقم پاکستان لے آیا جبکہ ایک لاکھ تیس ہزار پاونڈ بچوں کی رہائش کے خرچ کے طور پر استعمال کیے، اکتوبر 2001ء کے بعد نیازی سروسز لمیٹڈ سے کوئی کرایہ وصول نہیں کیا، فلیٹ کی فروخت کے بعد نیازی سروسز لمیٹڈ کا باقی رہنا بے معنی تھا۔ دوسری جانب