بد قسمتی ہے پولیس افسر قتل مقدمات میں تحقیقات کی نگرانی نہیں کرتے معاملہ تفتیشی پر چھوڑ دیتے ہیں:سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت +صباح نیوز) سپریم کورٹ نے قتل کے چار مختلف مقدمات نمٹاتے ہوئے خواتین کے دو قاتلوں کی بریت کی درخواستیں مسترد جبکہ ایک بیوی اور دو بچوں کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ملزم سمیت قتل کے دو ملزموں کو بری کرنے کا حکم دیدیا۔ عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ایس پی اور ڈی ایس پی رینک کے افسران قتل کے مقدمات میں تحقیقات کی نگرانی کرنے کے بجائے معاملہ تفتیشی افسر پر چھوڑ دیتے ہیں اور معاشرے میں اگر مرد بے عزتی کرے تو ٹھیک ہے عورت کرے تو جرم بن جاتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے ان مقدمات کی سماعت کی۔ پہلے مقدمہ میں ملزم سلیم احمد نے 2001ء میں لاہور میں اپنی بہن کو پیسے نہ دینے پر 6 فائر کر کے قتل کر دیا تھا جس پر ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزائے موت سنائی تھی جسے ہائیکورٹ نے برقرار رکھا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ ملزم نے بے رحمی سے اپنی بہن کو قتل کیا اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جا سکتی اس لئے اس کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی جاتی ہے۔ دوسرے مقدمہ میں عدالت نے قصور میں 2006ء میں بے عزتی کرنے پرہمسایہ میں رہنے والی خاتون پروین بی بی کو قتل کرنے والے ملزم شوکت علی کی بریت کی درخواست مسترد کر دی۔ تاہم عدالت نے وجہ عناد ثابت نہ ہونے پر سزائے موت کو کم کر کے عمرقید میں تبدیل کر دیا ہے۔ دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس دوست محمد خان کا کہنا تھا کہ جس شخص کا نام ایف آئی آر میں آ جاتا ہے پولیس کی دشمنی اسی سے ہو جاتی ہے اور وہ ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے۔ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ بالا افسران قتل کے مقدمات میں تحقیقات کی نگرانی نہیں کرتے۔ سارا معاملہ تفتیشی پر چھوڑ دیا جاتا ہے جس سے حقائق سامنے نہیں آ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ غیرت کے نام پر قتل کا نہیں لگتا بلکہ عزت بچانے کا معاملہ لگتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ کوئی شخص اپنے معصوم بچوں کو کیوں قتل کرے گا۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے اپنے متعدد فیصلوں میں یہ قرار دیا ہے کہ اگر گھر کے اندر بیوی اور بچوں کا قتل ہوتا ہے تو خاوند کو بالکل بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا اور اگر وہ مدعی بنتا ہے تو اس صورت میں بار شہادت بھی استغاثہ پر ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسی صورتحال میں خاوند کو بری الذمہ قرار دیدیا گیا تو خاوندوں کو بیویوں کو مارنے کا لائسنس مل جائے گا۔ تاہم اسد خان کے کیس میں صورتحال مختلف ہے۔