کولیشن فنڈز: ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کو 800 ملین ڈالر دینے کی تجویز
واشنگٹن (نیٹ نیوز) ٹرمپ انتظامیہ نے کولیشن سپورٹ فنڈز کے تحت پاکستان کو اگلے مالی سال کیلئے 800 ملین ڈالر دینے کی تجویز دی ہے۔ محکمہ دفاع کے ترجمان آدم سٹمپ نے پی ٹی آئی کو بتایا کو پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو امریکہ تسلیم کرتا ہے۔ افغانستان میں اتحادی فورسز کو میٹریل کی فراہمی کیلئے پاکستان کی ٹرانزٹ حمایت بھی قابل تعریف ہے۔ ترجمان نے کہا کہ پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی ہے۔ محکمہ دفاع نے پاکستان کو مذکورہ فنڈز دینے کیلئے کوئی شرط عائد نہیں کی۔ پاکستان کو 800 ملین ڈالر کی رقم کا جواز پیش کرتے ہوئے پینٹاگون کا کہنا ہے پاکستان خطے میں استحکام برقرار رکھنے کیلئے اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔امریکی ایوان نمائندگان کے رْکن آندرے کارسن نے کہا ہے کہ شدت پسندی سے ساری مہذب دنیا کو خطرہ ہے۔ اِس ضمن میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے داعش، القاعدہ اور دوسری شدت پسند تنظیمیں، جو خود کو مسلمان کہتی ہیں، ناصرف عالمی برادری بلکہ خاص طور سے مسلمانوں کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔امریکی ٹی وی کو انٹرویو میں انھوں نے اِس توقع کا اظہار کیا صدر ٹرمپ مسلمان سکالرز، مفکروں اور سیاست دانوں کے ساتھ گفت و شنید کریں گے اور ان کے ساتھ مل کر چلیں گے، تاکہ امریکہ کو عظیم ملک بنایا جائے، جس پر صدر ٹرمپ خود زور دیتے ہیں۔اْنھوں نے کہا سعودی عرب ایک اہم حلیف ملک ہے۔ امریکہ اور دنیا بھر کو محفوظ بنانے کے مقصد کی کامیابی کے لیے ہمیں مسلمان دنیا کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہوگا۔ساتھ ہی اْنھوں نے کہا ایران کو تنہا کر دینا اس مقصد کو پانے میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔انھوں نے کہا سوچ کا یہ انداز نقصان دہ ہے۔ میں ایران کا ناقد ہوں۔ لیکن ایرانی لوگوں سے مجھے رغبت ہے‘‘۔آندرے کارسن نے کہا ’’ایران بھی خطے کا ایک اہم ملک ہے۔ میرے خیال سے ایران سے تعلقات کو ہر سطح پر بڑھانا چاہیئے، تاکہ اسے جوہری طاقت بننے سے روکا جا سکے، جیسا کہ صدر اوباما کی انتظامیہ کیا کرتی تھی۔اْنھوں نے کہا کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مخاصمت میں کمی لانے میں مدد کی جائے۔ آندرے کارسن کا کہنا تھا کہ امریکی مسلمان ایف بی آئی ، سی آئی اے اور محکمہ خارجہ جیسے اہم اداروں میں کام کرتے ہیں، جو امریکہ کو محفوظ بنانے کا کام بجا لاتے ہیں۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے اسلام مخالف بیانات کے بارے میں ایک سوال پر اْنھوں نے کہا تلخ بیانات دل آزاری کا موجب بنتے ہیں۔ اسی طرح سخت مؤقف اختیار کرنے سے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے۔