• news
  • image

---- استقبال رمضان----

رمضان المبارک کامہینہ رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ اس کے فضائل کا اگر ہم بنظرِ غائر جائزہ لیں تو احساس، محبت، اجتماعی سوچ، رواداری اور ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کرنا رمضان المبارک کا اصل مقصد اور پیغام ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں لکھا ہے کہ ’’اس کے طریقے اور اس کے اغراض آب و ہوا، قوم و نسل اور تہذیب و تمدن اور دوسرے حالات کے پیش نظر سب کچھ مختلف ہیں۔ لیکن کسی ایسے قابل ذکر مذہبی سلسلہ کا نام لینا مشکل ہے جس میں روزے سے کُلینہ انکار کیا گیا ہو۔ اور اسے تسلیم نہ کیا گیا ہو۔ گویا کہ روزہ روحانی پاکیزگی اور نفس کو زیر کرنے میں بہت اہم ہے۔ در حقیقت اگر ہم روزے کے فوائد پر ایک نظر ڈالیں تو صوفیاء کرام ماہِ رمضان کو تنویرِ قلب کا نام دیتے ہیں۔ قرآنِ مجید نے روزہ رکھنے والے کو سائع کہا ہے جس کے معنی ہیں روحانی منازل طے کرنا۔ لیکن اسکی اولین شرط یہی ہے کہ جھوٹ، منافقت چور بازاری، ذخیرہ اندوزی اور اس قسم کی دیگر برائیوں سے اجتناب کیا جائے لیکن ہمارے ہاں دیکھنے میں آیا ہے کہ خورد و نوش کی اشیاء کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگتی ہیں اور مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ روزہ در حقیقت تعمیر سیرت کے فرائض بھی سر انجام دیتا ہے۔ جو لوگ برائیوں سے اجتناب نہیں کرتے ہیں۔ وہ صرف بھوک اور پیاس کو جھیلتے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ کتنے روزہ دار ہیں جن کو روزہ سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔
لیکن اگر روزہ خالصتاً عبادت اور برائیوں کے سدِ باب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے رکھا جائے تو ایک دوسرے سے ہمدردی اور مساوات جیسے عناصر جنم لیتے ہیں۔ اسلام نے کسی معاشرے کے امراء کو بھوک اور پیاس کا عملی احساس دلانے کے لئے روزوں کی عملی تعلیم دی ہے۔ تا کہ غرباء کی بھوک اور پیاس کا احساس ان کے دل میں اجاگر ہو جائے۔ دوسرے یہ کہ اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا احساس اس قدر شدید ہو جائے کہ روز مرہ زندگی میں بھی احتساب اور مواخذہ کا احساس زندہ رہے اور یہ احساس سیاسی، مذہبی، معاشرتی زندگی کے لئے ضروری ہے۔ مواخذہ اور احتساب کا خیال ہی قوموں کی صحیح راہیں متعین کرتا ہے۔ روزے کا بلا واسطہ تعلق اصلاح کردار و اعمال سے بھی جا ملتا ہے۔ ایک اور اہم عنصر ضبطِ نفس ہے جو حرام چیزوں سے دوری اور حلال چیزوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ گویا کہ اگر خالص عبادت کے جذبے اور اللہ کی خوشنودی کے لئے روزے رکھے جائیں تو انسانی شخصیت میں ایسے عناصر شامل ہو جاتے ہیں جو اس کو مثبت راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ابن آدم کا ہر عمل اسی کے لئے ہے سوائے روزے کے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ رمضان کا مہینہ امن کا مہینہ ہے حق میں تعاون اور باطل میں عدم تعاون کا مہینہ ہے اور قومی مساوات کا مہینہ ہے۔ یہ مہینہ ہمارے طرز معاشرت ، طرز سیاست اور اجتماعی زندگیوں پر اثر ڈال سکتا ہے۔ اگر ہم حقوق العباد کی اہمیت کو سمجھیں اور بھائی چارے کی وہ فضا قائم کریں جو آپؐ نے مدینہ جا کر جس کی بنیاد رکھی۔ قوموں میں تو انائی کی اسی وقت آتی ہے جب تمام عوام ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر کھڑی ہو۔ ان کے لئے انصاف ، عدل، امن، حقوق اور روزگار کا حصول ناممکن نہ ہو۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم غربت تلے پسے ہوئے عوام کا دکھ سمجھیں اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہماری توجہ کا مرکز صرف اور صرف اللہ کی ذات ہو اور جب یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کو جا کر جواب دینا ہے تو انسان دنیاوی مال و متاع کو عارضی چیز سمجھتا ہے اور اس دکھ کو محسوس کرتا ہے جو معاشرے کے پسے ہوئے طبقات محسوس کرتے ہیں اور روزے کا اولین مقصد اسی بات کا درس دینا ہے کہ وہ معاشرہ قائم ہو جس میں سب برابر ہوں اور سب کو یکساں حقوق حاصل ہوں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن