منشوروں کی بھرمار ہونے کے دن ؟
پاکستان کی سیاسی فضا میں ہلچل مچا دینے والی ہمہ ہمی اس حقیقت کی غمازی کررہی ہے کہ سیاسی جماعتیں آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کی خاطر سرگرم عمل ہوگئی ہیں۔ اس سلسلے میں ان سیاسی جماعتوں جماعتوں کی قیادتوں کی طرف سے ملک بھر کے دور و نزدیک علاقوں میں جلسوں سے خطاب کرنے کا سلسلہ جاری ہوچکا ہے۔ ایسے جلسوں میں ملکی سیاست میں غیر جمہوری اور دارِ حکومتوں کی پیدا کردہ روائتوں پر عمل پیرا ہوکر متحارب سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنمائوں کو بری طرح کے مہذب اور غیر مہذب انداز اور الفاظ کے استعمال سے رگیدے اور نشانۂ تنقید و تضحیک بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے میدان سیاست میں اس قسم کی ناقابل فخر روایات کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ نہ صرف قومی یکجہتی اور سیاسی قائدین کی عزت و توقیر گزند پہنچانے کے حوالے سے اس کے مضمرات کیا ہوں گے یہ تو زیادہ دور کی بات نہیں، مستقبل قریب ہی میں اس کا پتہ چل جائے گا۔ مگر سیاسی صورت حال جو انتخابی سیاست میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے، اس تناظر میں یہ انداز لگایا جاسکتا ہیکہ اب پھر سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخابات میںکامیابی کی راہ ہموار کرنے کی خاطر اپنا اپنا منشور مرتب کیا جائے گا۔ جو یقینا ایسے بلند بانگ دعوئوں اور وعدوں سے عبارت ہوگا جو ماضی کے خوشنما نعروں سے مختلف نہ ہوگا۔ اس حوالے سے گزشتہ 2013ء کے عم انتخابات میں مجموعی طور پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سب سے زیادہ نشستیں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے حاصل کی تھیں، اسی بنیاد پر وفاق میں اس جماعت کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے منتخب وزیراعظم کا عہدہ سنبھال کر حکومت تشکیل دی بلکہ پنجاب میں بھی اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) ہی برسر اقتدار آئی اور بلوچستان میں حکومت کی تشکیل بھی اسی جماعت کا مقدر بنی۔ جہاں تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے عام انتخابات 2013ء کے حوالے سے منشور کا تعلق ہے تو اس منشور کا اعلان 7 مارچ 2013ء کو اس جماعت کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے لاہور میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں کیا ہے۔ اپنے خوش کن بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ پولیس کو غیر سیاسی، مؤثر، فرض شناس بنانے کے لئے پولیس قوانین پر نظرثانی کی جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) ہزارہ، بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے نام سے تین صوبے بنانے کی حامی ہے۔ انہوں نے چین اور ترکی کے تعاون سے کراچی سے پشاور تک بلٹ ٹرین چلانے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے اس وقت وفاق میں برسر اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو ہدفِ تنقید بناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’’اس حکومت نے ملک کو بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور غربت کے اندھیروں میں ڈبویا۔ انتخابات میں عوام پیپلز پارٹی کی حکومت کی اسی کارکردگی پر شکست کے سمندر میں ڈبو دیں گے‘‘۔ انہوں نے مزدوروں کی تنخواہ کم از کم پندرہ ہزار روپے ماہوار اور لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے بہت سے وعدے اور دعوے بھی کئے۔ انہوں نے مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی شرح بے قابو ہونے کا بھی ذکر کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2013ء کے عام انتخابات میں بوجوہ کامیابی حاصل کرکے وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں حکومتیں تشکیل دیں تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منشور کا تعلق ملک کے جن مفلس، قلاش اور غربت کی لکیر سے نیچے تک زندگی گزارنے والے کروڑوں خاندانوں سے تھا، ان کے مسائل و مصائب کے خاتمے کی طرف سوچ کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ جہاں تک مزدوروں کی تنخواہیں 15 ہزار روپے مقرر کرنے کا تعلق ہے، مسلم لیگ (ن) کے عہد اقتدار کے پہلے ہی سال کے دورانیے میں اس وعدہ پر عمل کرنا مناسب نہ سمجھا گیا۔ جب 2013ء کے انتخابات سے قبل وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں پنجاب مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے لوڈ شیڈنگ پر مینار پاکستان کے سبزہ زار میں وفاقی حکومت کے خلاف بطور احتجاج باقاعدہ خیموں میں کیمپ نصب کیا تھا جہاں آپ اپنی کابینہ کے ارکان کے ساتھ ہاتھ میں ’’کھجوری پنکھوں‘‘ سے ہوا لیتے تصویریں اتروایا کرتے تھے جبکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2013ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد جب وفاق اور پنجاب میں حکومتیں بنائیں تو برسر اقتدار رہنے کے چار برس بعد 2017ء تک ملک بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بدستور برقرار رہے۔ رہی بات ہزارہ، بہاولپور اور جنوبی پنجاب کے نام سے تین صوبوں کے قیام کی، تو برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اپنے منشور کے اس اہم ترین حصے کا تذکرہ ہی چھوڑ دیا اور اس وعدے کو حرفِ غلط کی طرح فراموش کردیا گیا۔ پاکستان میں ہر غیر جمہوری دور میں طالع آزمائوں نے پولیس کو اپنے مخصوص ذاتی مفادات کی خاطر استعمال کرتے ہوئے جمہوریت پسندوں اور قومی سوچ رکھنے والے عناصر، اہل قلم، دانشوروں اور سخنوروں کے خلاف استعمال کرنے کی جو روایت قائم کی تھی، اسے ان کے ادوار کے پروردہ سیاسی میدان میں داخل کئے گئے عناصر نے بھی برقرار رکھنے میں اپنی بہتری جانی اور اس طرح ملک میں ایک غیر سیاسی اندازفکر کے حامل ادارے پولیس کو نہ صرف سیاسی بلکہ کسی حد تک حرص و ہوس اور طمع کے بندوں سے عبارت ایسے افراد پر مشتمل ادارے کی شکل دے دی گئی کہ یہ ہر دور کے اہل اقتدار کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بن کر رہ گئی۔ کہنے کو تو 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ وزیراعظم میاںمحمد نوازشریف نے بڑے دلسوز لہجے میں مہنگائی اور بے قابو غربت کا تذکرہ کیا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ جب سے وفاق اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) برسر اقتدار آئی ہے، 2017ء کے وسط تک ضروریات زندگی کی قیمتوں میں جوریکارڈ اضافہ ہوا ہے، اس کی مثال پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس کے نتیجے میں ملک کے کروڑوں خاندانوں کا گھریلو اقتصادی نظام تہہ و بالا ہوکر رہ گیا۔ ملک صرف دو طبقوں امیر تر اور غریب تر میں تقسیم ہوگیا۔ پاکستان کے عوام کے لئے اس تباہ کن صورت حال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے ارکان نے غریبوں کو غربت کی اتھاہ گہرائیوں سے بچانے کے لئے ان کی زندگی میں ایسی آسانیاں پیدا کرنے کی طرف سرے سے کوئی توجہ نہ دی کہ غربت کی گہرائیوں میں ڈوبنے والے کروڑوں خاندان روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھ سکتے۔ حکمرانوں نے صرف چند ہزار خاندانوں کی اقتصادیات کو قومی و ملکی وسائل کے ذریعے مستحکم سے مستحکم کرکے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنایا اور ان مخصوص چند خاندانوں کے اقتصادی استحکام کو ملکی معیشت کے بہتر ہوجانے کا نام دے کر اس کا ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان سے متوسط طبقے کا خاتمہ فطری امر تھا اور وہی ہوا۔ اپنے اپنے ملک کو فلاحی ریاست بنانے والی غیر مسلم اقوام کے مقابلے میں پاکستان کے اربابِ اقتدار نے ناداروں کے لئے قومی اور ملکی وسائل مختص کرکے انہیں یادگار قوم کا حصہ بنانے پر قطعاً توجہ نہ دی بلکہ انہیں بڑے فخر سے ناداروں کی صف میں شمار کرکے ان کی وقتی مدد ہی میں اپنی واہ واہ کرانے کا راستہ اپنایا۔ جہاں تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے منشور میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی طرف سے کئے گئے اس عزم کا تعلق تھا کہ چین اور ترکی کے تعاون سے کراچی سے پشاور تک بلٹ ٹرین چلائی جائے گی تو اس قسم کی نوید بھی ان مخصوص چند ہزار خاندانوں سے عبارت افراد کے لئے تو ہوسکتی ہے مگر بے قابو مہنگائی سے حواس باختہ غربت کے مارے کروڑوں خاندانوں کے لئے اس قسم کے عزائم بے معنی ہیں۔ دوست اور ہمدرد ممالک دست تعاون دراز کرتے ہیں تو اس سے ملک کے عوام کو کم قیمت پر اشیائے خورد و نوش، لباس، طبی سہولتیں اور تعلیمی ضروریات سمیت رہائشی سہولتوں کی فراہمی کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے کہ ہر فرد کی خوشحالی ہی میں ملکی سلامتی اور قومی یکجہتی کا راز مضمر ہے۔