تحریک استقلال…عروج وزوال(6)
’’رہائی کمیٹی‘‘ کی صورت حال کچھ یوں تھی کہ عاصمہ جہانگیر نے جب ’’پاکستان ہیومین رائٹس کمشن آف پاکستان(H.R.C.P) کی بنیاد رکھی تو میں اور لیاقت وڑائچ ہائی کورٹ بارسے نکل کرسامنےG.P.Oکے بس سٹاپ سے سوار ہوکر انٹرکانٹی نینٹل پہنچے اورکمشن کے بنیادی رکن بنے، تقاریر سنیںچائے پی اور واپسی بھی بس کے ذریعے ہوئی۔ کسی کارکن کے گھر صرف تسلی دینے کی خاطر ہی جاتے تو بھی ویگنوں اور بسوں کا سفر کرتے۔ جیب اتنی اجازت بھی نہ دیتی کہ کوئی رکشہ کرائے پرلے لیاجائے۔ بڑے بڑے رہنما جو بعد میں پاکستان کے صدر اور صوبوں کے گورنر، سپیکر اور وزراء بنے ہم دونوں کو دیکھ کریہ سوچ کر دائیں بائیں ہوجاتے کہ یہ اپنے ساتھ ہمیں بھی مروائیں گے۔ ہم اپنے حدوداربعہ میں دیکھتے تو منظور گیلانی۔ ریاض لون، ایاز لطیف راجہ ذوالقرنین،کامریڈ افتخار شاہد، نواز گوندل، سہیل ملک، عباس عابدی، سیف اللہ سیف اور قاری اشفاق وغیرہ نظر آتے جن کے پاس خلوص اور جدوجہد کے علاوہ کچھ نہ تھا۔اسی ’’غریبی دعوے‘‘ کی ’’سیاسی اسیران رہائی وبہبود کمیٹی‘‘ نے لیاقت وڑائچ کی رہنمائی میں مگر اتنا کام ضرور کیاکہ جیلوں میں قید کارکنوں کو ’’سیاسی کارکن‘‘ تسلیم کروایا۔ ان کے حقوق کی ضمانت حاصل کی ،شاہی قلعے کے ظلم وستم کے طلسم کو توڑا اور وہاں پر مقید کارکنوں کو جیلوں میں منتقل کرواکے ان کی رسید حاصل کی۔ چونامنڈی اور وارث روڈ کے عقوبت خانوں سے کارکنوں کو رہائی دلائی۔جہاں 24گھنٹے4×4 فٹ کے پنجروں میں سیاسی کارکنوں کو رکھا جاتا تھا۔ یعنی نہ وہ صیحح حالت میں بیٹھ سکتے تھے نہ کھڑے ہو سکتے تھے اور نہ ہی لیٹ سکتے تھے کارکنوں کے پائوں سے بیڑیاں اتروائیں اور انہیں جانور سمجھنے والوں سے تسلیم کروایا کہ سیاسی کارکن نہ صرف انسان ہیں بلکہ یہ پاکستان کے ماتھے کا جھومر اور سیاست کے باب کے درخشاں ستارے ہیں۔ میں82ئ۔83ء کے بیتے سالوں کا ذکر کررہا ہوں۔ آج 2017ء میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا ہے کہ یہ کام چند دیوانوں نے بسوں اور ویگنوں پر سفر کرکے کڑی دھوپ اور کڑاکے کی سردی کا مقابلہ کرکے اور بغیر دھن دولت کے فوجی ٹولے کے خلاف کردکھایا۔ …؎
ہر دور کے آقا، غلام ابن غلام
ہر عہد کی تاریخ، چند سودائی
’’رہائی کمیٹی‘‘ کا ذکر چل نکلا ہے تو نا صرف لاہور بلکہ ملک بھر میں کمیٹی نے کام کیاجو ساری کی ساری لاہور سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کی تھی۔لاہور کے علاوہ ایک اکیلا شخص تھا میں جس کا تعلق گوجرانوالہ سے تھا۔اکثریت کا تعلق وکلاء برادری سے تھا۔ایک بار ایک اجلاس میں میری ذمہ داری لگائی گئی کہ صوبہ سرحد (اب خیبر پختون خواہ)کادورہ کرکے سیاسی قیدیوں کے کوائف اکٹھے کروں۔"خفیہ"والے بھی خبردار رہتے تھے۔ ان سے بچنا بھی بہت ضروری ہوتاکہ مبادا ’’پینڈا‘‘ کھوٹا ہوجائے۔ پشاور کے تاریخی قلعہ ’’بالاحصار‘‘ کے عقوبت خانے میں قید سیاسی کارکنوں کے کوائف اکٹھے کرکے ایم ٰآر ڈی کے مقامی قائدین اور تحریک استقلال کے ساتھیوں سے مل کر اگلے روز ہر ی پور جیل روانہ ہوگیا جو صوبہ سرحد میں دوسری بڑی جیل ہے۔ جیل حکام سے ملنے کی درخواست کی۔ بیرونی پھاٹک سے نکل کر سپر نٹنڈنٹ کے دفتر کی بابت استفسار تو اہل کار نے کہا کہ جناب وہ سامنے والادفتر انہیں کا ہے ۔دروازے پر نہ کوئی دربان نہ چک نہ پردہ جس کا جب جی چاہے سپرنٹنڈنٹ سے مل لے۔ میں جو پنجاب کی جیلوں کے ماحول کا عادی ہو چکا تھایہ منظر دیکھ کر حیران ہی تو رہ گیا۔ جیلر کو عرض کی کہ اگر آپ کے یہاں کوئی سیاسی قیدی ہوں تو ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا کہ ہماری جیل میں تو بہت سے سیاسی کارکن ہیں آپ سب سے تو نہیں مل سکتے ہم ان میں سے کسی ایک کو بلا لیتے ہیں جب تک آپ چائے پئیں۔ یہ ایک اور حیران کردینے والا تجربہ تھا۔ سیاسی کارکنوں کی ملاقات کو آنے والے کیلئے تفتیش کی بجائے چائے پلانا واقعی حیران کن تھا۔ یا شائد پختونوں کی روایتی مہمان نوازی۔ چائے پیتے ہوئے ہمارے دوست، ترقی پسند رہنما پیپلز پارٹی کے ورکر اور آج کل کے معروف صحافی امتیاز عالم جیلر کے کمرے میں آگئے باہم مل کر بڑی خوشی ہوئی، گلے ملے۔ سبھی سیاسی کارکنوں کی بابت معلومات لیں۔دراصل ’’رہائی کمیٹی‘‘ کی کوشش تھی کہ تمام سیاسی کارکنوں کو ان کے آبائی شہروں میں منتقل کرایا جائے۔ مگر امتیاز عالم نے یہ کہہ کرچونکا دیا کہ ہمارے لئے ایسی کوئی کوشش نہ کی جائے۔ ہم اس جیل میں جتنے ’’آزاد‘‘ ہیں۔ پنجاب میں تو اپنے گھروں میں بھی نہیں ہوں گے۔ اور واقعی میں یہ سب کچھ خود دیکھ چکا تھا۔ اس لئے ہم نے وہی کیا جو وہ چاہتے تھے۔ بات ذرا ادھر ادھر ہوگئی۔کہیں کی کہیں چلی گئی۔ ’’تحریک استقلال‘‘ ہمارا موضوع تھا۔ ایم آر ڈی کا اتحاد یاد آتا ہے تو بہت سے حوالے، واقعات اور بہت سے جگر دارساتھی یاد آجاتے ہیں جدوجہد، وفاشعاری اور مقصد سے لگن جیسے اثاثے سنبھالے ہوئے ایم آر ڈی کے کارکن جدوجہد میں مصروف رہے ۔دوسری طرف جیلوں میں کوڑے مارنے اور پھانسیوں کا مکروہ دھندہ بھی جاری رہا۔ پورا مغرب اور امریکہ اپنی جدید جنگی ٹیکنالوجی اور عرب ممالک اپنی دولت کے ساتھ ضیاالحق کے پشت پناہ تھے۔انسانی حقوق کے چیمپئن مغرب وامریکہ نے انسانی حقوق کے قتل عام پر آنکھیں بند کررکھی تھیںاور عرب والے ’’افغان جہاد‘‘ میں دولت لٹا رہے تھے کہ کسی طرح ’’کافرروس‘‘ کو شکست سے دوچار کیاجائے۔ اس جہاد سے ہمیں کیا ملا۔ اس کا فیصلہ تاریخ نے کچھ اس طرح کیا کہ آج روس اور پاکستان کی فوجیں مشترکہ مشقیں کر رہی ہیں۔ یعنی وہی روس آج گو یا مسلمان ہو چکا ہے۔ نہیں ایسا نہیں روس میں وہی کمیونزم ہے جس کے خلا ف جہاد کیا گیا۔ یہ صرف وقت وقت کی سیاسی ضرورتیں ہوتی ہیں جسے کبھی کبھی ہم اپنے مفادات کے لئے خدا اور رسولؐ کا نام دے کرخلق خدا کو بے وقوف بناتے ہیں۔ افسوس کہ یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ مزید شدت سے چل رہا ہے۔ ایم آر ڈی نے اوائل اگست1983کو گلبرگ لاہور میں چیچہ وطنی سے تعلق رکھنے والی تحریک استقلال کی رہنما شہناز جاوید (سابق ایم این اے)کے ہاں ضیاالحق کے خلاف تحریک چلانے کا فیصلہ کیا۔ تحریک استقلال کے چوہدری اعتراز احسن۔آپا مہناز رفیع، چوہدری طارق عمر اور میرے علاوہ تحریک استقلال کے دیگر ساتھیوں نے شرکت کی کیونکہ تحریک کے صوبائی صدرملک حامد سرفراز اور ایم آر ڈی کے صوبائی صدررائو رشید کوٹ لکھپت جیل میں نظر بند تھے۔اس اجلاس میں پیپلز پارٹی کے فاروق لغاری اور جہانگیر بدرنے بھی شرکت کی۔ ایم آر ڈی میں شامل دیگر جماعتوں میں سے کس کس نے شرکت کی اب نام یاد نہیں آ رہے۔ میرا خیال ہے شائد دیگر کسی جماعت کا نمائندہ اس اجلاس میں نہیں تھا۔اکثر جیلوں میں نظر بندیاں کاٹ رہے تھے۔پیپلز پارٹی کے طارق بشیر چیمہ، ارشد اعوان اور آصف بٹ کے علاوہ ’’قومی محاذ آزادی کے ارشد بٹ اور دیگر سینکڑوں سیاسی کارکن ’’الذوالفقار‘‘ کے چکر میں شام، افغانستان اور ناروے وغیرہ میں جلاوطنی کے جہنم میں جل رہے تھے۔ جو تھوڑے بہت کارکن بچے وہ اپنے ذاتی وگھریلو مسائل کا بری طرح شکار تھے۔کئی ایک کو پیٹ کی مارنے قبروں کے کتبے بنا کر رکھ دیا۔ یہاں تک کہ بچوں کے رشتے بھی آنا بند ہوگئے۔ کارکنوں کے بغیر تحریک چلانا گویا کسی پہاڑ کاکلیجہ چیر کر چشمہ نکالنے والی بات تھی۔ لیکن پھر بھی 14اگست1983ء کو ضیاء الحق کے خلاف بحالی جمہوریت کی تحریک چلانے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ اس روز پروگرام کے مطابق تحریک استقلال کی طرف سے مجھے اور پیپلز پارٹی کی طرف سے سابق صدر پاکستان فاروق لغاری نے گرفتاری دینا تھی۔ (جاری ہے)