مستند ایٹمی ریاست کے لوازمات پورے، ہائیڈروجن بم کا تجربہ باقی ہے
اسلام آباد(سہیل عبدالناصر) مئی 1998میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا منہ توڑ جواب دینے کے بعد انیس برس کے سفر میں پاکستان نے ایک مستند ایٹمی ریاست ہونے کے تمام لوازمات پورے کر لئے ہیں۔ اب ہائیڈروجن بم کا تجربہ باقی ہے لیکن ریاست نے فیصلہ کرنا ہے اس تجربہ کی ضرورت ہے یا نہیں؟ مئی 2017 میں پاکستان یورینئم اور پلوٹونئیم ، دونوں عناصر سے ایٹمی بنا رہا ہے، سیکنڈ سٹرائیک، یعنی جوابی ایٹمی حملہ کی مئوثر استعداد حاصل کر لی گئی ہے۔ سب سے اہم کامیابی یہ ہے پاکستان نے خشکی، سمندر اور فضا، سے حملہ کی صلاحیت کی بدولت وہ سٹرٹیجک تکون بنا لی ہے جو کسی بھی ایٹمی ریاست کیلئے لازمی تصور کی جاتی ہے۔ باور کیا جاتا ہے پاکستان کے پاس سوا سو کے قریب ایٹمی ہتھیار ہیں جب کہ دو سو وار ہیڈز بنانے کیلئے افزودہ مواد موجود ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کو داغنے کیلئے مکمل قابل اعتماد نظام کی تیاری سے پاکستان کبھی غافل نہیں ہوا۔ پاکستان کے اسلحہ خانہ میں بیلسٹک اور کروز، ہر قسم کی میزائل موجود ہیں لیکن دو میزائل، خصوصی ذکر کے مستحق ہیں۔ ’ بیٹل فیلڈ رینج‘‘ کا حامل نصر میزائل جو ٹیکٹیکل، یعنی چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں سے میدان جنگ میں دشمن کی فوجی فارمیشن برباد کر سکتا ہے اور بائیس سو کلو میٹر فاصلہ تک مار کرنے والا ابابیل میزائل جو ایم آئی آر وی ٹیکنالوجی کا حامل ہے جس کی بدولت دشمن کے میزائل شکن نظام کو شکست دیتے ہوئے ایک ہی میزائل سے بیک وقت متعدد وار ہیڈ الگ الگ اہداف پر گرائے جا سکتے ہیں۔ ایٹمی سائن و ٹیکنالوجی کے تمام شعبوں میں بے مثال ترقی کرتے ہوئے پاکستان اب فوجی اور سویلیں دونوں ایٹمی پروگراموں کے قابل رشک اثاثوں کا مالک ہے۔ دھماکوں کے بعد انیس سالہ قلیل سفر کے دوران پاکستان نے ایٹمی پروگرام کی کمانڈ اتھارٹی اور اس کے سیکرٹریٹ یعنی ایس پی ڈی کی تشکیل کر کے اپنے ایٹمی پروگرام کو درپیش سب سے بڑے چیلنج پر قابو پا لیا۔