• news

اسلامی فوجی اتحاد کی تفصیلات نہ دینے پر چیئرمین سینٹ برہم‘ وزیر دفاع‘ مشیر خارجہ آج طلب

اسلام آباد (وقائع نگار+ایجنسیاں) چیئرمین سینٹ نے اسلامی فوجی اتحاد کے دائرہ کار کی تفصیلات فراہم نہ کرنے پر دفاع اور خارجہ امور کے سیکرٹریز کو ایوان بالا کا استحقاق مجروح کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور مشیر خارجہ امور سرتاج عزیز کو بدھ کو (آج) دن 11 بجے ایوان میں طلب کرلیا ۔ انہوں نے ریمارکس دیئے پارلیمنٹ کو بند کیوں نہ کردیں‘ دونوں وزارتیں متذکرہ معلومات کی فراہمی سے معذرت کررہی ہیں۔ اجلاس کے دوران پی پی پی کے رہنما سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے سعودی حکام کے بیانات کہ اسلامی ملٹری الائنس نہ صرف دہشت گرد تنظیموں جیسے داعش اور القاعدہ کو روکے گا بلکہ یہ کسی رکن ملک کے لئے خطرے کا باعث بننے والے باغی گروہوں کے خلاف اس ملک کی درخواست پر کارروائی کرے گا سے متعلق وزیر دفاع کی توجہ مبذول کروانے کا نوٹس پیش کیا۔ نوٹس پیش ہونے کے موقع پر ایوان بالا میں موجود واحد وزیر ریاض حسین پیرزادہ بھی اٹھ کر چلے گئے۔ محرک نے کہا کہ آج بھی وزیر دفاع ایوان سے غیر حاضر ہیں۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا پارلیمنٹ کو بند کیوں نہ کردیں کوئی بھی وزیر ایوان میں موجود نہیں۔ 29مئی کو بھی یہ نوٹس ایجنڈا پر موجود تھا بتایا گیا کہ یہ معاملہ وزارت خارجہ سے متعلق ہے وزارت کی وجہ سے بات کی گئی تو جواب آیا کہ ان کے دائرہ کار میں یہ معاملہ نہیں ‘ ان کے پاس یہ معلومات نہیں ہیں۔ وزارت دفاع بھی جواب سے انکاری ہے کیا پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل نہیں کہ اسے اسلامی ملٹری الائنس سے متعلق معلومات فراہم کی جائیں۔ تفصیلات کی فراہمی کی بجائے اسے تھالی کا بینگن بنایا جارہا ہے۔ اس طرز عمل کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ پارلیمنٹ کو کٹی ہوئی گھاس سمجھ لیا گیا۔ نوٹس کے محرک نے مطالبہ کیا کہ اس مسئلے کو استحقاق کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔ دونوں سیکرٹریز نے استحقاق مجروح کیا ۔دریں اثناء چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کوئٹہ کے گرد و نواح میں عسکری اداروں کے زیر قبضہ زمینوں کے معاملے پر بلوچستان اسمبلی میں منظور ہونے والی تینوں قراردادوں کی تفصیلات طلب کرلی ۔ اس بارے میں تحریک التواء کو بحث کے لئے منظور کرنے نہ کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ قبل ازیں اجلاس میں پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر محمد عثمان خان کاکڑ نے تحریک پیش کی کہ کوئٹہ میں فوج اور فضائیہ کی جانب سے زمین پر قبضے میں تشویشناک اضافہ کو زیر بحث لایا جائے کیونکہ لوگوں میں اس وجہ سے تشویش پیدا ہورہی ہے۔ چیئرمین سینٹ نے ایوان کو آگاہ کیا کہ اس مسئلے پر بلوچستان اسمبلی میں پہلی قرارداد جولائی 1999 ‘دوسری مارچ 2007 اور تیسری قرارداد جنوری 2014 کو منظور ہوئیں دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے ان قراردادوں کے حوالے سے کیا کچھ کہا۔ کیا یہ قراردادیں پارلیمنٹ کو موصول ہوئی ۔ انہوں نے تحریک کو بحث کے لئے منظور کرنے نہ کرنے کے لئے رولنگ محفوظ کرلی رولنگ بدھ کو (آج) جاری کی جائے گی۔ اپوزیشن لیڈر چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ حکومت اب اپنا کوئی کام نہیں کرے گی سب کام چین سے کرائے گی۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ پولی ٹیکنیک کی تعلیم کے بعد گھوڑوں کی افزائش فلش سسٹم کے لئے بھی یہ چین سے مدد مانگیں گے اب تو سب کچھ چین کے حوالے کیا جارہا ہے وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے منگل کو سینٹ میں آگاہ کیا ہے کہ 310 ارب روپے کی اضافی گرانٹس کی تفصیلات بجٹ دستاویزات کے ساتھ موجود ہیں۔ اس امر کا اظہار انہوں نے اپوزیشن لیڈر چوہدری اعزاز احسن کے نکتہ اعتراض پر کیا۔ اپوزیشن لیڈر کے مطابق رواں مالی سال کی سپلیمنٹری گرانٹس کی تفصیلات سینٹ میں پیش نہیں کی گئیں ۔حکومت اپنی شاہ خرچیوں کو چھپا رہی ہے۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ وہ اس معاملے کا جائزہ لے کر آج رولنگ جاری کریں گے۔ چیئرمین سینٹ نے کشمیریوں پر بھارت کا ریاستی تشدد و ریاستی دہشت گردی افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ مشیر خارجہ (آج) بدھ کو 11 بجے ایوان میں آکر اٹھائے گئے توجہ مبذول نوٹس کا جواب دیں۔بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں میجر نے فاروق ڈار کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا، اس میجر کو بھارتی آرمی چیف نے میڈل دیا، یہ انسانیت کے خلاف اقدام ہے ۔ پی پی پی کی رہنما سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ پانامہ کیس کی موجودگی میں حکومت سے ویسے بھی کسی انقلابی بجٹ کی توقع نہیں تھی۔ مایوس کن بجٹ ہے ملک اندھیروں میں ہے۔ گردشی قرضہ 410 ارب روپے ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم ہائوس کے اخراجات میں ڈیڑھ ارب روپے اضافہ ہوا ہے سموسے پکوڑوں پر لگاتے جارہے ہیں ۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ بجٹ دستاویز سیاسی بیانیہ ہے حکومت نے سیاسی بیانیہ دیا ہے کہ ہم سپریم کورٹ کو بندوق کے زور پر نشانہ بنائیں گے حکومت سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے خائف ہے کہ وزیراعظم کابینہ کی اجازت کے بغیر کوئی آئینی و قانونی ترمیم نہیں لاسکتے۔ اب وزیراعظم کو انتطامی مالیاتی اختیارات دینے کا قانون سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کرنے کے مترادف ہے بندوق کی طاقت کے زور پر اداروں کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن