تحریک استقلال۔عروج وزوال
لاہور ہائی کورٹ بار کے صدر سید افضل حیدر جنرل سیکرٹری شیخ ثائر علی (سابق جسٹس سپریم کورٹ)اور"رہائی کمیٹی"کے جنرل سیکرٹری لیاقت وڑائچ اور ہمارے دوست سعید آسی نے بار روم میںچائے وغیرہ سے تواضع کی۔اتنے میں فاروق لغاری بھی آگئے اور ہم لاﺅئج سے مال روڈ والے گیٹ کی طرف چل دیئے ۔سٹرک پر کارکن جمع ہوچکے تھے جنہوں نے ہمیں دیکھتے ہی جمہوریت زندہ باد اور ضیاءالحق مردہ باد کے نعرے بلند کرنے شروع کردیئے۔یہاںایک دلچسپ مگر افسوس ناک واقعہ بتاتا چلوں کہ گرفتاریاں دینے کے اعلان سے قبل"ضیاءحمائت"نامی ایک جماعت وجود میں آگئی جیسے آج کل "نواز شریف لورز"یا حمزہ یوتھ ونگ"جیسے خود روپودے اگ آئے ہیں ۔ "ضیاءحمائت"تحریک نے اعلان کردیا کہ جو کوئی "مردمومن۔مرد حق"ضیاءالحق کے خلاف جلوس نکالے گا یا گرفتاری دینے کی کوشش کرے گا تو اس کا منہ کالا کرکے ، گدھے پر سوار کرکے شہر میں گھمایا جائے گا۔اسی اثناءمیں مولانا ادریس کاندھلوی صاحب کا بیان بھی سامنے آگیاکہ "پہلا مارشل لاءحضرت ابوبکر صدیق نے لگایا تھا"ایسے ماحول میں گرفتاری دینے کیلئے مال روڈ جیسی بھری پڑی سٹرک پر آنابڑا دل گردے کاکام تھا۔ہم گیٹ کے قریب پہنچنے ہی والے تھے جب سٹیٹ بینک سے جی پی اوآنے والی سٹرک پر ایوان اوقاف اور حضرت شاہ چراغ کے قریب ہم نے بیس تیس کے قریب باریش لوگوں کو گدھوں سمیت دیکھا ۔کچھ نے بالٹیاںبھی اٹھا رکھی تھیں۔اب خدا جانے ان میں واقعی کالا رنگ موجود تھابھی یا نہیں لیکن ان کے "نا۔رائے ۔تک۔بیر"(نعرہ تکبیر)کی آوازیں گونج رہی تھیں۔فاروق لغاری اور میں گیٹ پر پہنچے ہم دونوں نے کارکنوں سے خطاب کیا۔اس سے قبل کہ کوئی بدمزگی پیدا ہوتی۔D.I.Gلاہور جہانگیر مرزا نے جو لغاری صاحب کے دوست یا بیج میٹ تھے انہوں نے صورت حال کو بھانپتے ہوئے پیش قدمی کی اور ایک وارنٹ گرفتاری ہمارے سامنے پیش کیا جس پر فاروق لغاری کا نام تھااورنہ میرا۔صرف لاہور کے مارشل لاءایڈ منسٹریٹر جنرل عمران اللہ نیازی کی مہر لگی تھی۔ہمیں گرفتار کرنے کے بعد تھانہ سول لائن لایا گیااور وہیںوارنٹ پر ہمارے نام ولدیت وغیرہ لکھے گئے۔فاروق لغاری نے D.I.Gسے کہاکہ اگر تھانہ میں مزید ہماری کوئی ضرورت نہیں تو ہمیں جیل بھیج دو۔مگر کیمپ جیل نہیں کیونکہ وہ کچی جیل ہے جوکبھی صاف نہیں ہوتی اسکی بجائے کوٹ لکھپت جیل بھیج دو۔جہانگیر مرزا نے اسی وقت پولیس کی گاڑی میں ہمیںکوٹ لکھپت بھیج دیا۔جہاں پیپلز پارٹی کے راﺅ رشید اور تحریک استقلال کے ملک حامد سرفرازنے ہمارا استقبال کیا۔جو پہلے سے ہی وہاں نظر بندتھے ۔کسی نہ کسی طور تحریک چل نکلی تھی۔روزانہ گرفتاریاں دینے والے کارکن جیل میں آنا شروع ہوگئے۔پہلے روز سابق MPAاشتیاق بخاری اور سابق وزیر رانا شوکت محمود آئے ۔پھر نیشنل عوامی پارٹی کے راﺅ مہر وز اختر اور فاروق قریشی۔اگلے روز جہانگیر بدر اور پھر ناظم شاہ ۔سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔PDPکے رشید قریشی،ارشد چوہدری مسلم لیگ کے سربراہ ملک قاسم، سید مقصود شاہ ۔جمیعتہ علماءاسلام کے عباس عابدی۔ سابق MPAضیاءبخت بٹ۔پیپلز پارٹی کے عبدالقادر ۔طالب علم راہنما ڈاکٹر اسرار شاہ ۔اعجاز شاہ ۔اور آخر میں شکرگڑھ سے پیپلز پارٹی کے چوہدری انور عزیز بھی گرفتاری دے کرآگئے۔ساتھ ساتھ واقع ان تینوں احاطوں کو Bکلاس میں تبدیل کردیا گیا تھا۔تیسرے احاطے میں سابق جسٹس سپریم کورٹ چوہدری جاوید بٹر۔اسلم گورداسپوری ۔تحریک استقلال کے چوہدری اعتراز احسن اورمیاں خورشید محمود قصوری(سابق وزیر خارجہ)کمیونسٹ راہنما میاں بشیر ظفر نظر بند تھے۔ہمارے ساتھ والے ایک گمنام احاطے میں پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی وزیر بریگیڈئیرصاحب دادکے بیٹے زاہد داد کو شاہی قلعے سے منتقل کرکے رکھا گیا۔جسکا کئی دنوں تک اس لئے بھی پتہ نہ چل سکا کہ اس احاطے کو گودام کے طور پر استعمال کیا جاتا تھااور یہیں پر زاہد دادکو رکھا گیا تاکہ وہ دیگر کارکنوں سے نہ مل سکے۔جب اتنے سارے سیاسی کارکن اور ساتھی مل گئے تو ذہنی کلفتوں میں کمی آگئی اور جب ایک روز صبح اور شام کے وقت دودو گھنٹوں کیلئے احاطوں سے باہر چہل قدمی کی اجازت ملی تو پھر جیل۔۔۔جیل نہ رہی۔ایک پکنک کا سماں بن گیا کوئی سیر کررہا ہے تو کوئی لڈو کھیل رہا ہے۔کئی ایک سیاسی گپ شپ کررہے ہیں تو کوئی تاش سے دل بہلا رہا ہے ۔پھر ایک دن فاروق لغاری ۔راﺅ مہر وز اختر۔فاروق قریشی۔اعجاز شاہ اور مجھے پنجاب کی بدنام سنٹرل جیل ساہیوال منتقل کردیا گیا ۔جہاں پیپلز پارٹی فیصل آباد کے احمد سعید اعوان ۔امان اللہ خاں اور شیخوپورہ سے سابقMNAملک عارف اعوان نے ہمارا استقبال کیا۔ ساہیوال سنٹرل جیل میں وقت اس لئے اچھا گذرا کہ سپرنٹنڈنٹ جیل کیپٹن سرفراز مفتی ایک صاحب علم اور صاحب دل آدمی تھا۔گاہے گپ شپ لگانے کیلئے اپنے دفتر بھی بلا لیتا کسی سیاسی کارکن کی ملاقات میں رکاوٹ پیدانہ کرتا ۔سب کی عزت کرتا اور کرواتا۔آج 32سال بعدبھی اس کی یاد سے جی خوش ہوجاتا ہے ۔اکتوبر83ءکے سخت گرم موسم میں ہم ساہیوال سنٹرل جیل گئے تھے۔اب موسم کافی بدل چکا تھا۔باد نسیم کے جھونکے جسم کو چھوتے اور مستی طاری کردیتے۔جہاں ہمیں رکھا جیل کاوہ حصہ "چھ چکی"کہلاتا تھا۔کیونکہ ا س میں چھ کوٹھڑیاں تھیں۔اور یہ وہی جگہ تھی جہاں پنڈی سازش کیس کے ملزموں کورکھا گیا تھا۔جن میں فیض احمد فیض اور میجر اسحاق کے علاوہ دیگر اشترا کی راہنما بھی شامل تھے۔فیض نے اپنی معروف زمانہ غزل
گلوں میں رنگ بھرے،بادنوبہارچلے
اسی احاطے میں لکھی ۔اسی"چھ چکی"کے حوالے سے انہوں نے اپنی خوبصورت غزل
ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں ہر روزنسیم صبح وطن
یادوں سے معطرآتی ہے اشکوں سے منورجاتی ہے
بھی اردو ادب کو عطا کی۔
ایک شام جیل کا ہر دلعزیزہیڈ وارڈر گل محمد جو مسکراتا ہوا آیا تو مسکراتا ہی چلا گیا۔پوچھنے پر اس نے ہم سب کو رہائی کی نوید دی اور سامان لے کر جیل کی ڈیوڑھی پہنچنے کی ہدائت کی ۔رہائی کا قانونی عمل ایک گھنٹے تک جاری رہا۔جیل کا بیرونی پھاٹک کھلا،ہم سب باہم بغلگیر ہوئے اور رات گئے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔ضیاءالحق کے دور ظلمت میں یہ ہماری آخری جیل تھی ۔اس کے بعد حالات بدلنا شروع ہوگئے اور ضیاءالحق کی بھی ترجیحات بدل گئیں اور کارکنوں کے سرسے بھی آسیب کا سایہ ٹل گیا۔83ءکو چلائی جانے والیMRDکی تحریک کا پنجاب میں زیادہ دم خم نہیں تھا۔مگر سندھ میں اس تحریک نے سیاسی طور پر بڑے گہرے اثرات مرتب کیئے۔خاص طور پر غلام مصطفے جتوئی نے بڑا اہم کردار ادا کیا۔کئی ایک شہادتوں کی بھی اطلاعات ملتی رہیں۔قوم پرست جماعتوں نے بھی MRDکا مکمل ساتھ دیا۔کراچی کے اردو بولنے والوں نے بڑے بڑے جلوس نکال کر تحریک کو تقویت دی ۔ایم ۔کیو۔ایم ابھی وجود میں نہیں آئی تھی ۔مہاجر سٹوڈنٹس فیڈریشن کے نام سے کہیں کسی تعلیمی ادارے میں کوئی اجلاس وغیرہ ہوتا ہوگا تاہم عوام تک اس کی کوئی رسائی نہیں تھی ۔سندھ گویا مکمل طورپر ضیاءالحق کے خلاف صف آراءہوچکا تھا۔ (جاری ہے)