”لیکن جسے پنپنا تھا مٹی میں مل گیا“
فرزانہ ناز کو میں ذاتی طور پر تو نہیں جانتی تھی۔ ایک خبر منظر عام پر آ گئی کہ ایک شاعرہ کتب میلے کے لگائے گئے بارہ فٹ کے سٹیج سے گر کر مر گئی۔ صدمہ ہوا، اچانک واقعہ اور وہ بھی دلخراش واقعہ بہت تکلیف دیتا ہے۔ گزشتہ دنوں نواز کھرل نے اکادمی ادبیات میں فرزانہ ناز کی یاد میں تعزیتی ریفرنس کا انتظام کیا۔ جس میں فرزانہ ناز کے شوہر اور بچوں کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس تعزیتی ریفرنس میں انہوں نے خود بھی شاعری کی صورت میں فرزانہ ناز کو اور ان کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ فرزانہ ناز کی شاعری کو جب میں نے پڑھا تو ان کی شخصیت کا پرتو میرے سامنے تھا۔ ان کی شاعری نے مجھے چونکایا اور حیران کیا کہ وہ اس عمر میں وہ راز جان گئی تھی جس میں دنیا کی بے ثباتیوں اور ہجر نے اس کا رشتہ ربوبیت سے بھی جوڑ رکھا تھا۔ اپنی پنجابی نظم مٹی دا کھڈونا میں انہوں نے لکھا کہ....
مٹی دا رنگ روپ انوکھا
مٹی دی خوشبو انوکھی
مٹی نال محبت وکھری
دل وچ ایہدی چاہ اے چوکھی
میں مٹی دا اک کھڈونا
مٹیوں بنا مٹی ہونا
کہیڑیاں بڑکاں
کیہڑے دعوے
مٹی دی ایک ڈھیری دے وچ
کہیڑی چکّی کہیڑا باوا
زندگی کی بے ثباتی نے ان پر اپنے در اس طرح وا کئے ہوئے تھے کہ ان کا شعری مجموعہ ”ہجرت مجھ سے لپٹ گئی“ بھی بے ثباتیوں کی ہی ایک کہانی ہے۔ یہ ہجرت ان کے ذہن، فکر اور خیالات پر پوری طرح مسلط ہے۔ قارئین کرام زندگی برتنے کا سلیقہ اور ترسیل فکر کا اہتمام دراصل دو ایسی خوبیاں ہیں جن کی قدرو قیمت صرف وہی لوگ جانتے ہیں جنہوں نے نہ صرف ذات کے اندر کا سفر کیا ہو بلکہ باہر کی دنیا کی بے ثباتیوں سے بھی آگاہ ہوں۔ فرزانہ ان دونوں خوبیوں کا مرقع تھی۔ فرزانہ کی موت مر جانے کا نام نہیں ہے بلکہ ان کے جذبات، احساسات اور خیالات کے امر ہونے کا نام ہے۔ وہ ہجرت کر گئی لیکن اپنی نظمیں چھوڑ گئی۔ یہ نظمیں اس کی ابدیت کا پیغام ہیں۔ جسے عرف عام میں ہم جینا مرنا اور پھر جینا کہتے ہیں۔ جس میں جسم تو منوں مٹی تلے دفن ہو جاتا ہے لیکن خیالات جسم کی مانند لفظ کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ اس کے الفاظ ہمارے درمیان بکھرے موتی ہیں جن سے استفادہ کرکے زندگی کے مفہوم کو سمجھا جا سکتاہے۔ فرزانہ کا سفر مختصر سفر تھا۔ قارئین کرام، مختصر سفر محفوظ نہیں ہوتے ہیں۔ اچانک خط مستقیم پر چلنے چلتے وہ راستہ آ جاتا ہے جہاں جدائی کا جان لیوا داغ سینے میں ابھر آتا ہے اور یہ داغ کسک بن کر تکلیف دیتا رہتاہے۔ پھر خیال آتا ہے کہ ابھی تو بیج بونے کا موسم تھا اور لفظ خوشبو اور معنویت کا وہ شجر اگنا تھا کہ جن کے سائے تلے احساس اور محبت کو ٹھنڈک مل سکے لیکن زندگی کا یہی کلیہ ہے کہ جس نے سفر کا آغاز کیا اچانک کہیں نہ کہیں اختتام تو ہوتا ہے۔ لیکن اس کلیئے کا نچوڑ یہ ہے کہ جو چیز ہم سے اچانک چھن جائے تو وہ خلا رہ جاتا ہےجس کو وقت کی دبیز تہیں بھی پر نہیں کر سکتی ہیں۔ فرزانہ کا شعری مجموعہ ہجرت مجھ سے لپٹ گئی۔ دراصل بقا سے فنا کی طرف نہیں بلکہ فنا سے بقا کی طرف کا سفر ہے۔ وہ بھی اپنی شاعری کے ذریعہ امر ہو گئیں۔
بقا کے اہم جزیات ہیں اخلاص اور وفا کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ فرزانہ نے ان دو عناصر کے علاوہ چند اور عناصر کا اضافہ کیا کہ وہ دلوں کی زمین میں تاحد نظر وہ لہلہلاتی فصل بو کر گئی ہیں کہ اس فصل کو آنے والی نسلیں کاٹتی رہیں گی۔ ان کی موت یقیناً وہ صدمہ ہے کہ جسے بھلانا آتا نہیں ہے۔ منفرد نظریات، خیالات اور سوچ کی حامل فرزانہ ناز اپنی شاعری میں اکثر جدائی، ہجر اور فنا کو موضوع بنائی ہوئی اپنی شخصیت کو گم کرتی نظر آتی ہیں۔ بسا اوقات تو ایسا بھی ہوا کہ مجھے ان کو ان کے شعری مجموعے ہجرت مجھ سے لپٹ گئی ہیں ڈھونڈنا مشکل ہو گیا۔ کبھی وہ ایک مجذوب کا روپ دھارے ذات کی تہیں اتارتی نظر آتی ہیں۔ کہیں سفر اور ارادہ سفر ان کا محبوب مشغلہ رہا اور کہیں محبت کی میٹھی میٹھی پھوار نے ان کو زندگی کی خوبصورتیوں کا احساس دلایا اور کہی دنیا کی بدصورتیوں سے تنگ آ کر انہوں نے کوچ کا ارادہ کر لیا۔ شاعری کے حوالے سے میں نے فرزانہ کو پرکھا اور جانچا اگر میں اس سے زندگی میں مل پاتی تو یقیناً ان کی زندگی ایک خوبصورت اور انوکھا پہلو میرے سامنے آتا۔ تاہم اللہ تعالی سے یہی دعا ہے کہ مرحومہ کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔آمین....
ویسے تو شاخ تازہ پہ اک گل تھا کھل گیا
لیکن جسے پنپنا تھا مٹی میں مل گیا