کاغذی شیر برمنگھم میں ڈھیر!!!!!!
میرے ساتھ سیلفی لیں، مجھے جی بھر کر سیلفیاں بنانے دیں، سوشل میڈیا پر میرے فالورز کی تعداد لاکھوں میں کروا دیں،مجھ سے کسی اشتہار میں ماڈل کے طور پر کام کروائیں، مجھے بیرون ملک ٹونٹی ٹونٹی لیگ کے لیے این او سی دے دیں، مجھے سینٹرل کنٹریکٹ کی اے کیٹیگری میں شامل کر لیں، مجھے ملک کے ٹاپ ڈریس ڈیزائنر کے ملبوسات پہنا دیں، مجھے اچھے سے اچھا موبائل اور مہنگی سے مہنگی گاڑی کا شوق پورا کرنے دیں، مجھ سے کسی ٹی وی شو میں باتیں سن لیں، جہاں جاوں ایک ہیرو کی طرح کا برتاو کریں، میرا کسی بیٹ بنانے والی بڑی کمپنی سے مہنگا معاہدہ کروا دیں، شہر کے سب سے مہنگے علاقے میں بنگلہ بھی چاہیے، میری تمام ضروریات پوری کریں، مجھے سب کچھ کرنا ہے سوائے اچھی کرکٹ کھیلنے کے، مجھے سب کچھ کرنا ہے سوائے بڑے میچز جیتنے کے، مجھے سب کچھ کرنا سوائے کرکٹ سیکھنے کے، مجھے سب کچھ کرنا سوائے فٹنس کو بہتر بنانے کے، مجھے سب کچھ کرنا ہے سوائے ورلڈ کلاس کرکٹر بننے کے، یہ نوحہ ہے پاکستان کرکٹ ٹیم کا۔برمنگھم میں جس غیر معیاری کارکردگی کا مظاہرہ ہمارے کرکٹرز نے کیا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستان ٹیم نے ایک مرتبہ پھر روایتی غیر معیاری کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک اور شکست اپنے کھاتے میں ڈال لی ہے۔ برمنگھم میں بھارتی ٹیم کے کھلاڑیوں نے بیٹنگ کے شعبے میں بہترین کھیل کا مظاہرہ کیا پھر باولنگ فیلڈنگ میں بھی بہتر کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے فتح حاصل کی۔ کوئی غیر معمولی پاور ہٹنگ نہیں کی جسکی گردان ہمارے چوٹی کے سابق ٹیسٹ کرکٹرز کرتے ہیں۔ یہ مکمل طور پر ذمہ داری، سمجھداری، احساس، اہلیت اور صلاحیت کا مقابلہ تھا اور اس مقابلے میں ہمارے کرکٹرز زیرو ہوئے۔ پاکستان کرکٹ کا المیہ ہے کہ یہاں اوسط درجے کے کھلاڑیوں کو غیر معمولی کوریج دیکر سر پر چڑھایا گیا ہے۔ اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو کوئی بھی ورلڈ کلاس کرکٹر نہیں ہے البتہ دعووں اور بیانات کی حد تک ان سے بڑا کرکٹر شاید کرکٹ کی تاریخ میں کوئی نہیں گذرا ہو گا۔ ہم نے ماضی میں بھی اوسط درجے کے کھلاڑیوں کو میرے سے ہٹ کر کرکٹ کھلائی اور اسکا خمیازہ آج بھی بھگت رہے ہیں جس ملک میں دس گیندیں کھیلنے والے سپرسٹار بن جائیں اس ملک کے بیٹنگ ٹیلنٹ کا یہی حال ہوتا ہے۔ چیمپئنز ٹرافی بلے بازوں کا ٹورنامنٹ ہے۔ ابتک کھیلے گئے میچز میں بیٹسمنوں کا راج رہا ہے اور تمام ورلڈ کلاس کرکٹرز نے اپنی اہلیت ثابت کی ہے۔ وہ روہت شرما ہوں ویرات کوہلی، جوئے روٹ، کین ولیم سن یا پھر ہاشم آملہ سب نے اپنی ٹیم کے لیے میچ وننگ اننگز کھیلی ہیں اور یہ تمام کھلاڑی ہر طرح کی کرکٹ میں پرفارم کرتے ہیں۔ ہمارے بلے بازوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انکے پاس شاٹس کی کمی ہے، یہ رنز نکالنے کے لیے خراب گیند کے منتظر رہتے ہیں۔ انکی شاٹس کی رینج بہت محدود ہے یہی وجہ ہے سنگلز ڈبلز کیساتھ سکور بورڈ کو بھی متحرک نہیں رکھ پاتے۔ یہ رنز کرنی کے لیے کمزور یا خراب باولنگ کے محتاج ہیں۔ یہی حال گیند بازوں کا ہے وکٹوں کے حصول کے لیے اگر کنڈیشنز اچھی نہیں ہیں تو بے حال اور غیر موثر نظر آتے ہیں۔ خراب فیلڈنگ تو دیرینہ مسئلہ ہے وہ ٹھیک ہو ہی نہیں سکتا۔ کرکٹ بورڈ اسی میں خوش ہے کہ " گورے" کوچز ٹیم کیساتھ لگا دیے ہیں بس یہی کافی ہے اور یہی انکی بنیادی ذمہ داری تھی جو پوری کر دی گئی ہے۔ حقیقی معنوں میں ہمارے پاس کلاس کرکٹرز نہیں ہیں۔ دنیا ہر کام میں بہت آگے نکل گئی ہے۔ وہ کھیل کی سمجھ کی بات ہو، وہ ڈسپلن کی بات ہو، وہ میرٹ پر سلیکشن کی بات ہو، منصوبہ بندی و حکمت عملی کی بات ہو، احساس ذمہ داری کی بات ہو ہم ہر معاملے میں پیچھے ہی نہیں بہت پیچھے ہیں۔ یہ ہمارے کاغذی شیر ہیں جو برمنگھم میں ڈھیر ہوئے ہیں پریشان مت ہوں کونسا پہلی مرتبہ ہوا ہے اور کونسا آخری مرتبہ ہوا ہے۔ سلسلہ چل رہا تھا جاری رہنے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ جس ملک میں ایک کھلاڑی کم از کم درجن بھر کم بیک کر لے اسکی کرکٹ کا یہی حال ہوتا ہے جو ہمارا ہو رہا ہے۔ اوپر سے نیچے تک اور نیچے سے اوپر تک سب اسکے ذمہ دار ہیں۔