تھریسامے مخلوط حکومت بنائینگی‘ ملکہ سے ملاقات: 12 پاکستانی نزاد امیدوار بھی کامیاب
لندن (نیوز ایجنسیاں+ نیٹ نیوز) برطانوی پارلیمانی الیکشن میں کوئی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہ کرسکی۔ وزیراعظم تھریسامے کی کنزرویٹو پارٹی اور ڈی یو پی مخلوط حکومت بنائیں گے۔ تھریسامے نے دارالعوام میں اکثریت نہ ملنے کے باوجودبرطانوی وزیراعظم تھریسامے نے دارالعوام (صفحہ9بقیہ 21)
میں اکثریت نہ ملنے کے باوجود بکنگھم پیلس میں ملکہِ برطانیہ سے حکومت سازی کے لیے اجازت طلب کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق تھریسامے کی بکنگھم پیلس میں ملکہ کے ساتھ ملاقات 20 منٹ جاری رہی۔ ملاقات کے بعد وہ واپس ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ روانہ ہو گئیں جہاں انھوں نے پریس بریفنگ میں کہا کہ وہ حکومت سازی کر رہی ہیں اور ان کی حکومت بے یقینی کو ختم کرے گی اور ملک کو محفوظ بنانے کے لیے کام کرے گی۔ تھریسامے کا کہنا تھا کہ کنزرویٹو اور ڈی یو پی مل کر حکومت بنائیں گے اور کئی برسوں سے دونوں جماعتوں کے خاص تعلقات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ بریگزٹ کے پرانے ٹائم ٹیبل پر بات چیت جاری رہے گی۔ تھریسامے نے وعدہ کیا کہ وہ دس روز میں شروع ہونے والے بریگزٹ مذاکرات میں ملک کے مفادات کا تحفظ کریں گی اور برطانوی عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالیں گی۔ ان کو امید ہے کہ شمالی آئر لینڈ کے ڈیموکریٹک یونینسٹ (ڈی یو پی) ان کی حمایت کرے گی۔ اس وقت صرف ایک نشست کا نتیجے کا اعلان ہونا باقی رہ گیا ہے۔650کے ایوان میں کنزرویٹو جماعت کے پاس حکومت بنانے 326 نشستوں سے آٹھ کم ہیں۔ لیبر جماعت کے سربراہ جیریمی کوربن نے تھریسامے سے کہا ہے کہ وہ حکومت سازی سے دستبردار ہو جائیں اور لیبر جماعت حکومت سازی کے لیے تیار ہے۔ جبکہ لبرل ڈیموکریٹک رہنما ٹم فیرن کا کہنا ہے تھریسامے شرمندہ ہونا چاہیے' اور 'اگر ان میں ایک اونس بھی اپنی عزت ہے تو' انھیں مستعفی ہونا چاہیے۔ تھریسامے نے جب انتخابات کا اعلان کیا تھا اس وقت کے مقابلے میں اب انھیں 12 نشستیں کم حاصل ہوئی ہیں اور انھیں حکومت سازی کے لیے دیگر جماعتوں کی حمایت درکار ہے۔ کنزرویٹیو جماعت کو 319 نشستیں حاصل ہوئیں جبکہ لیبر پارٹی کو 261، سکاٹش نیشنل پارٹی کو 35 اور لبرل ڈیموکریٹس کو 12 اور ڈی یو پی کو 10 نشستیں ملی ہیں۔ کنزرویٹیو اور ڈی یو پی کے اتحاد سے ان کی کل دارالعوام میں کل نشستیں 329 ہو سکتی ہیں۔ تھریسامے نے کہا ہے کہ ملک کو 'استحکام' کی ضرورت ہے جبکہ دس روز بعد بریگزٹ کے حوالے سے مذاکرات کا آغاز ہونے والا ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ تھریسا مے ڈی یو پی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کے ساتھ غیررسمی طور پر معاملات طے کریں گی۔ ادھر لیبر پارٹی نے انگلینڈ، ویلز اور سکاٹ لینڈ میں 29 اضافی نشستیں جیتنے کے بعد کہا تھا کہ وہ اقلیتی حکومت بنانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن اگر وہ ایس این پی، لبرل ڈیموکریٹس، گرین پارٹی اور پلائیڈ کیمری کے اتحاد میں شامل بھی ہو جاتی ہے تو ان کی کل نشستوں کی تعداد 313 بنتی ہے جو مطلوبہ اکثریت 326 سے کم بنتی ہے۔ دوسری طرف شمالی آئرلینڈ کی ڈیمو کریٹک یونینسٹ پارٹی نے تھریسا مے کی حمایت کرتے ہوئے ان کے ساتھ اتحاد بنانے پر آمادگی ظاہر کردی۔ ڈیمو کریٹک یونینسٹ پارٹی نے ایک بیان میں کہاکہ کنزرویٹیو پارٹی اگر سادہ اکثریت حاصل نہ کرسکی تو ہم مذاکرات کی مضبوط پوزیشن میں ہوں گے۔ معلق پارلیمان کی صورت میں ہماری جماعت کی بہت اہمیت ہوگی، ہم سب سے بڑی پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے کے لیے مذاکرات کریں گے۔ڈی یو پی کے مطابق کنزرویٹیو پارٹی اور ہماری جماعت میں بہت مشترک ہے، ہم دونوں بریگزٹ کی کامیابی چاہتے ہیں۔دوسری جانب برطانیہ کی قوم پرست سیاسی جماعت سین فین نے پارلیمان میں نہ بیٹھنے کا اعلان کیا ہے۔ پارٹی کے صدر جیری ایڈمز کا کہناتھا کہ برطانوی پارلیمان میں اپنی نشستیں نہیں لیں گے۔ذرائع کے مطابق سین فین کی پالیسی کی وجہ سے پارلیمان میں سادہ اکثریتی نشستوں کی تعداد کم ہو سکتی ہے۔ برطانیہ میں 2017ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی پارلیمان کے منتخب اراکین میں پاکستانی اور انڈین نڑاد سیاست دان بھی شامل ہیں۔ اس بار عام انتخابات میں مجموعی طور 56 انڈین نڑاد امیدوار جبکہ 30 پاکستانی نڑاد امیدواروں نے حصہ لیا تھا۔ ان میں سے جہاں 12 پاکستانی نڑاد امیدواروں نے کامیابی حاصل وہیں انڈین نڑاد امیدواروں کی تعداد بھی 12 ہی رہی۔ کامیاب ہونے والے 12 پاکستانی نڑاد امیدواروں میں سے نو کا تعلق لیبر پارٹی جبکہ تین کا کنزرویٹو سے ہے اور ان میں سے پانچ خواتین ہیں۔ ان میں زیادہ تر پاکستانی نڑاد امیدوار تو گذشتہ انتخابات میں بھی کامیاب ہوئے تھے لیکن لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر مانچسٹر کے علاقے گورٹن سے افضل خان اور بیڈفورڈ سے محمد یاسین نے پہلی بار دارالعوام کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بریڈفورڈ ویسٹ کی نشست پر لیبر پارٹی کی امیدوار ناز شاہ جبکہ بریڈفورڈ ایسٹ کے حلقے سے لیبر پارٹی کے ہی عمران حسین جیتے ہیں۔ برمنگھم پیری بار کے حلقے سے لیبر پارٹی کے خالد محمود جبکہ برمنگھم لیڈی وڈ سے لیبر پارٹی کی ہی شبانہ محمود ایک بار پھر کامیاب ہوئی ہیں۔ لیبر پارٹی کی یاسمین قریشی بولٹن ساؤتھ ایسٹ جب کہ لیبر پارٹی کی ڈاکٹر روزینہ ایلن خان ٹوٹنگ لندن سے دوبارہ رکنِ پارلیمان بنی ہیں۔ وارنگٹن ساؤتھ سے فیصل خورشید نے لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی ہے۔ حکمران کنزرویٹو پارٹی کے تین امیدوار ساجد جاوید برومز گرو سے، نصرت غنی ویلڈن جبکہ رحمان چشتی گیلنگھم اور رینہم سے ایک بار پھر انتخابات جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کامیاب انڈین نڑاد ارکانِ پارلیمان میں سے سات کا تعلق لیبر پارٹی سے جبکہ پانچ کا کنزرویٹو پارٹی سے ہے اور ان میں چھ خواتین ہیں۔ لیبر پارٹی کے تن منجیت سنگھ دھیشی پگڑی پہننے والے پہلے سکھ ہیں جو برطانوی پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں۔ ان کے علاوہ پریت کور گل پہلی خاتون سکھ رہنما ہیں جو دارالعوام میں اپنے حلقے کی نمائندگی کریں گی۔ کنزرویٹو پارٹی کی حکومت میں وزیر رہنے والی بھارتی نژاد پریتی پٹیل بھی الیکشن جیت گئی ہیں۔ لیبر پارٹی کی جانب سے جن سات امیدواروں نے کامیابی حاصل ان میں تن منجیت سنگھ دھیشی اور پریت کور گل کے علاوہ لیسٹر ایسٹ سے کیتھ واز،ولسل ساؤتھ سے ویلیری واز، فیلتھم اینڈ ہیسٹن سے سیما ملہوترا، وگن سے لیزا نندی اور ایلنگ، ساؤتھ ہال سے وریندر شرما شامل ہیں۔ کنزرویٹیو پارٹی کی جانب سے کامیاب ہونے والے انڈین نڑاد امیدواروں میں سوئیلا فرنانڈیز (فیئرہیم)، پریتی پٹیل (وتھیم)، آلوک شرما (ریڈنگ ویسٹ)، رشی سنی (رچمنڈ)، شیلیش وارا (نارتھ ویسٹ کیمبرج شائر) اور رینا رینجر (برمنگھم، ہال گرین) سے کامیاب ہوئے ہیں۔ برطانیہ میں قبل از وقت ہونے والے عام انتخابات میں پہلی بار ایک خواجہ سرا امیدوارنے بھی حصہ لیا، خواجہ سرا اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کی جانب سے الیکشن میں شریک ہوئیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے طویل عرصے سے سرگرم 50 سالہ صوفی کْک کنزرویٹیو پارٹی کے اْس قانون ساز کے مدمقابل انتخابات میں کھڑی ہوئیں جو دو دہائیوں سے ایسٹ وردنگ اور شورہیم میں جیتتے چلے آرہے ہیں۔ برطانیہ میں عام انتخابات میں معلق پارلیمان کے نتائج سامنے آنے کے بعد برطانوی پانڈ کی قدر میں تیزی سے کمی ہوئی ہے۔برطانوی کرنسی پانڈ سٹرلنگ کی قدر میں گذشتہ رات سے کمی شروع ہوئی اور اس میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر میں 1.7 فیصد کمی کے بعد اس کا ریٹ 1.2737 ڈالر تک گر گیا ہے جبکہ ملک کی بے سیاسی صورتحال میں بے یقینی سے سٹاک مارکیٹس میں بھی پریشانی کا عالم ہے۔یورو کے مقابلے میں پانڈ کی قدر میں 1.4 فیصد کمی کے بعد یہ 1.1386 تک پہنچ گیا ہے۔تاہم ایف ٹی ایس ای 100 انڈیکس میں تیزی دیکھی گئی اور یہ 0.8 فیصد اضافے کے ساتھ 7,508.47 تک پہنچ گیا۔پانڈ کی قدر میں کمی کا اثر عام طور پر ایف ٹی ایس سی 100 انڈیکس میں تیزی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے کیونکہ بیشتر کمپنیاں بیرون ملک کاروبار کر رہی ہیں۔ پانڈ کی قدر میں کمی کا مطلب یہ بھی ہے کہ بیرون ملک حاصل ہونے والے منافعے کو جب پانڈ سٹرلنگ میں تبدیل کیا جاتا ہے تو اس کی قدر زیادہ ہوتی ہے۔بین الاقوامی کمپنیاں جیسا کہ گلیکسو سمتھ کلین اور ڈائیگو کی حصص میں سب سے زیادہ تیزی دیکھی گئی اور اس میں دو فیصد سے زائد اضافہ ہوا۔لیکن وہ کمپنیاں جو برطانیہ میں کاروبار کرتی ہیں یہ انتخابی تنائج سے بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ہاوس بلڈرز کی حصص میں پانچ فیصد کمی جبکہ ریٹیل کمپنیوں کے حصص میں بھی کمی دیکھی گئی۔ماہرین کا کہنا ہے یہ بے یقینی کی یہ صورتحال صارفین کی خرچ کرنے کی طاقت کو مزید کم کر سکتی ہے۔تاجر ٹریزا مے کی کنزرویٹیو پارٹی کی واضح کامیابی کی امید کر رہے تھے تاہم اب انھیں سیاسی بے یقینی کے بارے میں خدشات ہیں۔انتخابی نتائج کے مطابق کنزرویٹیو پارٹی اب بھی سب سے بڑی جماعت ہے تاہم اسے حکومت بنانے کے لیے چند مزید نشستیں درکار ہیں۔