• news

عرب ملکوں نے دبائو بڑھایا‘ 59 قطری ادارے اور افراد دہشت گرد قرار

دبئی+ انقرہ+ تہران+ واشنگٹن (نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں) عرب ملکوں کی جانب سے قطر پر دبائو میں اضافہ کر دیا گیا۔ قطری ادارے اور 59 افراد دہشت گردی کی فہرست میں شامل کردئیے گئے۔ قطر نے دو ٹوک مؤقف اختیار کیا ہے کہ دبائو کے آگے سر نہیں جھکائیں گے۔ جبکہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے قطر میں قائم ترکی کے ایک فوجی اڈے پر تین ہزار تک ترک فوجیوں کی تعیناتی کی منظوری دیدی۔ صدر ایردوان نے قطر کے ساتھ ایک اور معاہدے کی منظوری بھی دی ہے جس کے تحت دونوں ممالک کے درمیان افواج کی تربیت کیلئے تعاون اور مشترکہ فوجی مشقیں کی جائیں گی۔ ترکی کی جانب سے یہ دونوں اقدامات ایسے وقت کئے گئے ہیں جب قطر کو خطے کے بیشتر عرب ملکوں کی جانب سے سخت سفارتی اور تجارتی بائیکاٹ کا سامنا ہے۔ترک حکومت نے سعودی عرب کی جانب سے قطر کے ساتھ زمینی سرحد بند کرنے کے نتیجے میں قطر میں خوراک کی قلت پیدا ہونے کے خطرے سے نمٹنے کے لیے دوحا حکومت کو خوراک، پانی اور دیگر ضروری اشیا مہیا کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔صدر ایردوان نے واضح کیا کہ قطر کو تنہا کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں اور ترکی خطے میں پیدا ہونے والے اس بحران کے حل کے لیے ہر ممکن کوشش کریگا۔ ترک صدر بحران پیدا ہونے کے بعد سے سفارتی رابطوں میں بھی مصروف ہیں اور انہوں نے اس سلسلے میں سعودی عرب اور قطر کے حکمرانوں اور امیرِ کویت سے بھی ٹیلیفون پر بات چیت کی ہے۔کویت کے امیر بھی قطر اور دیگر عرب ریاستوں کے درمیان تنازعہ سفارتی حل کیلئے سرگرم ہیں۔دوسری طرف ایران نے قطر کو مدد فراہم کرنے کیلئے اپنی3 پورٹس کے استعمال کی پیشکش کردی ہے۔ کرنے کی غرض سے اپنے 3 پورٹ استعمال کرنے کی پیشکش کی ہے۔ قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی کے حوالے سے کہا گیا کہ دوحہ تمام ضروری اشیا درآمد کرنے کے قابل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کامیابی اور ترقی پسندی کے باعث الگ تھلگ کیا گیا، ہمارا پلیٹ فارم امن کیلئے ہے جنگ کیلئے نہیں۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جن ممالک نے اس پر پابندی لگائی ہے ان سے صرف 16 فیصد کھانے کی اشیا درآمد کی جاتی تھیں۔انھوں نے کہا کہ یہ تمام اشیا قابل تبدیل ہیں اور انھیں ایک دن میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، قطری اپنا معیار زندگی ہمیشہ برقرار رکھ سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ ترکی اور قطر کے گذشتہ کئی سالوں سے انتہائی قریبی تعلقات ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان 2014 میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت قطر میں ترکی فوجی اڈے کا قیام عمل میں آیا تھا۔ترک حکومت کا کہنا ہے کہ قطر میں ترک فوج کی تعداد اور ان کے تعیناتی کے عرصے کے حوالے سے فیصلہ خود فوج کرے گی۔علاوہ ازیں قطرکے وزیر خارجہ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے اپنے ملک سے متحدہ عرب امارات کو فراہم کی جانے والی گیس سپلائی معطل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کو ایک انٹرویو میں قطری وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ کسی کو دوحہ کی خارجہ پالیسی میں مداخلت کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ تجارتی صورتحال کو سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے عندیہ ظاہر کیا کہ یو اے ای بجلی بنانے کے لئے جو گیس استعمال کرتا ہے اس کا 40 فیصد قطر فراہم کرتا ہے۔ قطری وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ خلیجی تنازعہ سے پورے خطے کا استحکام خطرے میں ہے۔ انہوں نے اس تنازع کے حل کے لئے کسی فوجی آپشن کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں قطر نے عندیہ دیا ہے کہ متعدد عرب ممالک کے ساتھ جاری کشیدگی پر وہ اپنی خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کرے گا۔ وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے کہا کہ وہ بڑھتے بحران کے حل کے لیے سفارت کاری کو ترجیح دیں گے۔ ہم امن کا پلیٹ فارم ہیں دہشت گردی کا نہیں۔ انہوں نے کہا ایران نے قطر کو خوراک اور پانی کی فراہمی کے لیے تین بندرگاہوں کے استعمال کی پیش کش کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ پیش کش تاحال قبول نہیں کی ہے۔ مزید برآں امریکی انٹیلی جنس اداروں اور محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ خلیجی ریاست قطر کے حکمران آل ثانی خاندان کے افراد دہشت گرد تنظیموں کی معاونت اور القاعدہ جیسے گروپوں کو بھاری مدد، انہیں قطر میں پناہ وتحفظ دینے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ امریکی انٹیلی جنس اور وزارت خزانہ کی طرف سے جاری دستاویزی رپورٹس میں بتایا گیا کہ قطر کے حکمران آل ثانی خاندان کے افراد اپنے سیاسی اثرو رسوخ کی بنیاد پردہشت گرد تنظیموں کی براہ راست معاونت کرتے، ان کے دہشت گردانہ ایجنڈے کو دوسرے ملکوں تک پہنچانے میں مدد سمیت ہر طرح کی سہولت بھی فراہم کرتے رہے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق قطری وزیر برائے اوقاف و مذہبی امور وزیر داخلہ عبداللہ بن خالد بن حمد آل ثانی نے قطر میں قائم اپنے نجی فارم ہاؤس میں 100 شدت پسندوں کو پناہ مہیا کی۔ ان میں افغانستان میں لڑنے والے جنگجو بھی شامل ہیں۔ ان میں سرفہرست القاعدہ کے خالد شیخ محمد اور دیگر شامل ہیں۔ قطری وزارت مذہبی امور براہ راست ان شدت پسندوں کی مالی مدد بھی کرتی رہی۔ حکمراں خاندان کی ایک اور شخصیت عبدالکریم آل ثانی پر عراق میں القاعدہ کے کمانڈر ابو مصعب الزرقاوی کو پناہ دینے اور 2002ء میں اسے افغانستان سے عراق منتقل کرنے میں مدد فراہم کی اور ساتھ ہی اسے ایک ملین ڈالر کی رقم بھی مہیا کی گئی۔ دوسری طرف مصری حکومت نے عالمی سلامتی کونسل سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ وہ قطر کی جانب سے عراق میں دہشت گردی میں ملوث عناصر کو 26 افراد کی رہائی کے بدلے ایک ارب ڈالر تاوان کی مدد میں دی جانے والی رقم کی تحقیقات کرے۔ اقوام متحدہ میں مصر کے سینئر سفارت کار کا کہنا ہے کہ ہم نے درخواست میں موقف اپنایا ہے کہ اگر دوحہ پر عراقی دہشت گرد تنظیموں کو رقوم کی فراہمی کے الزامات درست ہیں تو یہ سلامتی کونسل کے فیصلوں کی کھلی خلاف ورزی اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک ریاست کی جانب سے دہشت گردوں کی مدد کے مترادف ہے۔

ای پیپر-دی نیشن