ادارے ریکارڈ تبدیل کر رہے ہیں‘ پانامہ تحقیقات60 روز میں مکمل نہیں ہو سکتی: جے آئی ٹی
اسلام آباد ( نمائندہ نوائے وقت+ ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے دوران حسین نواز کی تصویرلیکس ہونے کے معاملے پر کیس میں اٹارنی جنرل اورحسین نوازکے وکیل کو جے آئی ٹی رپورٹ کاجائزہ لے کر جواب جمع کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ رپورٹ کو پبلک کرنے نہ کرنے کے حوالے سے بھی اٹارنی جنرل سے جواب طلب کرتے ہوئے مزید ہدایت کی کہ اٹارنی جنرل جے آئی ٹی کے سکیورٹی تحفظات اور دیگر خدشات کے حوالے سے عدالت میں اپنی رپورٹ بھی جمع کرائیںجبکہ کیس کی مزید سماعت بدھ تک ملتوی کردی ہے ۔دوران سماعت جسٹس اعجازا فضل خان نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تصویر لیکس کے بارے میں اکثر الزامات کومسترد کرتے ہوئے مختلف حوالوں سے اپنے تخفظات کا بھی اظہارکیاہے ،جے آئی ٹی کو مقررہ مدت میں اپنا کام مکمل کرنا ہوگا اگر رکاوٹیں ڈالی جاتی رہیں توجے آئی ٹی کس طرح کام کر ے گی ، پیرکوجسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اورجسٹس اعجازالحسن پرمشتمل 3رکنی خصوصی بنچ نے کیس کی سماعت کی، اس موقع پر جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے واجد ضیاء نے تصویرلیکس کے بارے میں جے آئی ٹی کی جانب سے عدالت میں جواب جمع کرا نے کے ساتھ ا پنے تخفظات پرمبنی درخواست بھی پیش کی، جس کاجائزہ لینے کے بعد قراردیا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں لگائے جانے والے الزامات سنجیدہ نوعیت کے ہیں جن میں کچھ اداروں پر ریکارڈ تبدیل کرنے کا بھی الزام ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آخر ریاستی اداروں کے سربراہ تحقیقات کیلئے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے بعد عدالت کو خط کیوں لکھتے ہیں حالانکہ متعلقہ حکام یہی خط بعد میں میڈیا کو جاری کر تے ہیں، بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ انہیںحسین نوازکی تصویر لیک کے بارے میں جے آئی ٹی کے جواب کا جائزہ لینا چاہیے ،جس میں جے آئی ٹی نے لگائے گئے اکثرالزامات کو مسترد کردیا ہے جے آئی ٹی کے جواب میں یہ سب باتیں موجود ہیں کہ تصویر کس نے لیک کی اور اس کے خلاف کیا کارروائی ہوئی ہے فاضل جج نے کہاکہ اگر اٹارنی جنرل کو اعتراض نہ ہو تو اس رپورٹ کو دوسروں سے شیئر کیا جا سکتا ہے جس پرعدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت سے کہا کہ انہیں رپورٹ پبلک کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، سماعت کے دوران حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کوبتایا کہ قانون میں جے آئی ٹی کو وڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں ہے جس پرجسٹس اعجاز افضل نے ان سے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ غیر قانونی کام نہیں ہے بلکہ اس کامقصد انٹرویو کا ٹرانسکرپٹ تیار کرنا ہے ، تاہم جسٹس اعجاز الاحسن کاکہنا تھاکہ وڈیو ریکارڈنگ کسی گواہ کے خلاف استعمال نہیں کی جا سکتی۔بعد ازاں عدالت نے حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث اور اٹارنی جنرل کوہدایت کی کہ وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا جائزہ لے کرآئندہ سماعت پر اپنا جواب عدالت میں داخل کرائیں جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ اگرآپ جے آئی ٹی کا جواب پڑھے بغیر دلائل دینا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی ہے، تاہم آپ چاہیں توجے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات بھی جمع کرا سکتے ہیں۔ وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے عدالت عظمیٰ کو بتایا ہے کہ ریاستی ادارے اس معاملے میں مانگی گئی دستاویزات میں نہ صرف ردوبدل کرر ہے ہیں بلکہ اس کے ریکارڈ کو تبدیل بھی کیا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں کی جانب سے تحقیقات میں مداخلت کی بات پیر کو جے آئی ٹی کی طرف سے عدالت میں جمع کروائی گئی تحریری درخواست میں کی گئی ہے۔ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ ریاستی ادارے ریکارڈ کی فراہمی میں تاخیر کر رہے ہیں، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ جے آئی ٹی نے رکاوٹوں کی شکایت کی ہے، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ درخواست کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے، درخواست میں تحقیقات کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو بتایا گیا ہے کہ تفتیش کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ ’رکاوٹیں‘ کن اداروں یا شخصیات کی طرف سے کھڑی کی جا رہی ہیں۔ تفتیشی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا کی طرف سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو لکھی گئی اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے حالات میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں پانامہ کیس کی 60 روز کے اندر تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی۔ سماعت کے دوران تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی پارٹی کی حیثیت سے نہیں بلکہ وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے جے آئی ٹی کے الزامات کے بارے میں جواب داخل کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ان الزامات میں کوئی حقیقت ہے تو پھر ایسے افراد کی نشاندہی کریں جو تفتیش میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ دوسری طرف وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے معاملے پر درخواست کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی نے ان الزامات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ ان کی طرف سے یہ تصویر لیک نہیں کی گئی تاہم اس بارے میں تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تصویر لیک کرنے والے مجرم کی 24 گھنٹے میں نشاندہی کر لی گئی اور اسے اس کے متعلقہ ادارے میں واپس بھیج دیا گیا ہے، رپور ٹ میں متعلقہ شخص اور اس کے ادارے کا ذکر نہیں کیا گیا، عدالت نے وزیراعظم کے صاحبزادے کی طرف سے اس معاملے میں دائر کی گئی درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرلیا اور حسین نواز کے وکیل سے کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں 14 جون کو دلائل دے سکتے ہیں۔ درخواست کی سماعت کے دوران بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کا نام لیے بغیر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیسے ایک شخص کے جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کروانے کے بعد اس کی طرف سے جے آئی ٹی کے رویے کے خلاف سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو لکھا جانے والا خط میڈیا کی زینت بن گیا؟ سماعت کے دوران جے آئی ٹی کے چھ ارکان کو سپریم کورٹ کی عمارت کے مرکزی دروازے سے سخت سکیورٹی کے حصار میں کمرہ عدالت میں لایا گیا۔ اس موقع پر صحافیوں نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ سے سوالات بھی کیے لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ دوسری جانب پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کرنے والی ٹیم نے سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کو 13 جون کو طلب کرلیا ہے اور انہیں شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز کی تحقیقات کے حوالے سے دستاویزات بھی ساتھ لانے کو کہا ہے۔ رحمان ملک نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں اس وقت حدیبہ پیپر ملز کی تحقیقات کی تھیں جب وہ ایف آئی اے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات تھے۔دوسری طرف ایس ای سی پی کو ریکارڈ کی فراہمی کیلئے جے آئی ٹی کا خط موصول ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق خط میں جن کمپنیوں کا ڈیٹا مانگا گیا ہے اسے اکٹھا کرنے میں دو تین روز لگ سکتے ہیں۔ کمپنیوں کا ڈیٹا لاہور، کراچی سمیت دیگر رجسٹریشن آفس سے لیا جائے گا۔