خلیج بحران: نوازشریف ثالثی مشن پر سعودی عرب پہنچ گئے‘ شاہ سلمان سے ملاقات‘ آرمی چیف بھی ہمراہ
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) پاکستان نے سعودی عرب اور قطر کے درمیان اختلافات ختم کرانے کیلئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ وزیر اعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ثالثی مشن پر سعودی عرب پہنچ گئے ۔خلیجی ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر وزیراعظم نوازشریف سعودی عرب گئے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ ، مشیرخارجہ سرتاج عزیز اور وزیرخزانہ اسحقٰ ڈار بھی وزیراعظم کے ہمراہ ہیں۔ وزیراعظم محمد نوازشریف کے متحدہ عرب امارات اور قطر کا دورہ کرنے کا بھی امکان ہے۔ سعودی عرب روانگی سے پہلے وزیراعظم نے عرب ملکوں میں تعینات پاکستان کے سفیروں کی کانفرنس سے خطاب بھی کیا۔کانفرنس میں شرکت کے لئے سعودی عرب، کویت، یو اے ای اور قطر میں پاکستان کے سفیراسلام آباد پہنچے۔ سعودی عرب پہنچنے پر گورنر مکہ شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز نے پاکستانی وفد کا استقبال کیا۔ روانگی سے پہلے وزیراعظم نے سفیروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان برادر اسلامی ملکوں کے درمیان تنائو ختم کرنے کے لئے مخلصانہ کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک سے گہرے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات ہیں۔ اس سے قبل اجلاس میں وزارت خارجہ حکام اور سفیروں نے خلیجی ملکوں میں جاری بحران پر بریفنگ دی۔ اجلاس میں مشیر خارجہ سرتاج عزیز‘ سیکرٹری خارجہ اور دیگر حکام شریک ہوئے۔ وزیراعظم کے ترجمان کے مطابق نوازشریف کی قیادت میں وفد سعودی رائل پیلس پہنچا تو سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے وفد کا استقبال کیا۔ بعدازاں وزیراعظم نوازشریف اور شاہ سلمان میں ملاقات بھی ہوئی۔نجی ٹی وی کے مطابق ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی موجود تھے۔ وزیراعظم نوازشریف نے ملاقات میں خلیجی ممالک میں اختلافات اور خطے کی مجموعی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نوازشریف جدہ سے اسلام آباد کیلئے روانہ ہو گئے۔ سعودی اعلیٰ حکام نے وزیراعظم نوازشریف کو جدہ ایئرپورٹ پر الوداع کیا۔
دوحہ+ تہران+ واشنگٹن (آن لائن)قطر نے متعدد عرب ممالک کی جانب سے سفارتی تعلقات منقطع کیے جانے پر تنقید کرتے ہوئے اسے خطے میں برتری کی پالیسی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ پالیسی کامیاب نہیں ہوگی ۔یہ بات قطر کے وزیر خارجہ کے مشیر خصوصی برائے انسداد دہشت گردی مطلق ال قحطانی نے غیر ملکی خبر ایجنسی سے بات چیت میں کہی ۔ان کا کہنا تھا کہ قطر کے خلاف یہ سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے تاکہ اس پر دبائو ڈال کر اس کی آزاد خارجہ پالیسی کو تبدیل کیا جاسکے۔ تاہم برتری حاصل کرنے کی خلیجی ممالک کی یہ پالیسی کامیاب نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ قطر نے کبھی دہشت گردی کی حمایت کی اور نہ ہی اب قطر دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلے کے حل کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں اورہم اس معاملے میں مزید ممالک کی شمولیت بھی چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قطر میں کام کرنے والے دیگر خلیجی ریاستوں کے افراد جب تک چاہیں ملک میں قیام کرسکتے ہیں۔ ادھر کویت نے کہا ہے کہ قطر عرب ممالک کے خدشات دور کرنے پر راضی ہوگیا۔کویت کے وزیر خارجہ شیخ صباح الخالد الصباح نے کہا کہ قطر وقت کی نزاکت کو سمجھنے کیلئے تیارہے، قطر خطے میں سکیورٹی اور استحکام کیلئے بھی تعاون کرنے کو تیار ہے، دوحہ حکومت حالیہ بحران کے خاتمے کیلئے عالمی کوششوں کی حمایت کرتی ہے۔ صباح خالد الصباح نے زور دیا کہ خلیجی ممالک میں پائے جانیوالے اختلافات کو گلف فریم ورک کے تحت ہی حل کرنا چاہیے۔ قطر کے ایک اخبار نے سعودی عرب پر الزام لگایا ہے کہ قطر کے کچھ لوگوں کو مسجد حرام میں داخل ہونے سے روکا گیا ہے، قطر کے چند شہریوں کو مسجد الحرام میں داخل ہونے سے مبینہ طور پر منع کرنے کی خبر پر عربی میڈیا میں بحث جاری ہے۔ دوحہ کے اخبار الشرق نے قطر کے قومی انسانی حقوق کمشن کے حوالے سے یہ خبر شائع کی ہے۔ اخبار کے مطابق قطر کے انسانی حقوق کمشن کو شکایات ملی ہیں کہ قطر کے کچھ شہریوں کو مسجد الحرام میں جانے سے روکا گیا ہے۔ انسانی حقوق کمشن کے سربراہ علی بن شیخ المری نے اخبار سے کہا کہ یہ انسانی حقوق کے تحت حاصل مذہبی حقوق کی سخت خلاف ورزی ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ قطر کے لوگ شاہ سلمان کے دل میں رہتے ہیں۔ قطر کے لوگ سعودی عرب کے اپنے بھائیوں کی توسیع ہیں۔ شاہ سلمان قطر اور سعودی خاندانوں کے انسانی حقوق کے مسائل کو مشترکہ خاندان کے مسئلے کے طور پر سنتے ہیں۔ واضح رہے سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات، یمن اور مصر نے قطر پر انتہا پسندی کو فروغ دینے کے الزام لگانے کے بعد اس سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ایران نے عرب ممالک پر قطر سے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کو حل کرنے پر زور دیا ہے۔ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام غاسیمی نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران کہا کہ 'ان ممالک کو اپنے اختلافات مذاکرات کی میز پر اچھے انداز میں حل کرنے چاہئے'۔ دوسری جانب فرانس کے نومنتخب صدر ایمانوئیل میکرون بھی مشرق وسطیٰ میں فرانسیسی سفارتی اثر و رسوخ بڑھانے کی کوششیں کر رہے ہیں اور قطر اور دیگر ممالک کے درمیان جاری کشیدگی کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ میکرون کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ قطر کے امیر، سعودی فرمانروا، ترک صدر اور متحدہ عرب امارات کے امیر کے ساتھ گزشتہ ہفتے اس حوالے سے بات ہوئی ہے۔ علاوہ ازیں قطر نے خلیجی ممالک کی جانب سے راستے منقطع کئے جانے کے بعد اپنے بحری جہازوں کا اومان کے پورٹ کے ذریعے آمدورفت بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔