اسلام آباد:کم از کم تنخواہ15400‘ زرعی قرضے کی حد75 ہزار فی ایکڑ مقرر‘ پیٹر انجن سستا
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی/نامہ نگار) قومی اسمبلی نے گزشتہ روز اپوزیشن کے بائیکاٹ کے دوران آئندہ مالی 2017-18ء کے 47 کھرب سے زائد کے بجٹ کی منظوری دیدی، ایوان نے 14859 ارب کے لازمی اخراجات اور 34 کھرب اور 50 ارب روپے سے زائد کے 150مطالبات زر کو بھی منظور کر لیا، ایوان نے آئندہ مالی سال کے فنانس بل کی بھی منظوری دیدی، اس سارے عمل کے دوران اپوزیشن جماعتیں ایوان میں موجود نہیں تھیں جو کہ وزیر خزانہ کی بجٹ پر بحث سمیٹنے کی تقریر شروع ہوتے ہی ایوان سے واک آؤٹ کر گئی تھی اور اجلاس کے اختتام تک کوئی اپوزیشن جماعت ایوان میں واپس نہیں آئی، صدر مملکت کے دستخط کرنے کے بعد مالیاتی بل ایکٹ کی صورت میں یکم جولائی 2017ء سے لاگو ہوجائیگا۔ آئندہ بجٹ اور فنانس بل کی منظوری کیلئے ہنگامی طور پر اضافی ایجنڈا لایا گیا، قومی اسمبلی نے جن لازمی اخراجات کی منظوری دی ہے اس میں آئندہ انتخابات کی مد میں 2 ارب 34 کروڑ روپے، غیرملکی قرضہ جات کی لاگت کے ضمن میں 1231 ارب روپے، ملکی قرضوں کی واپسی کیلئے 13163 ارب روپے اور بیرونی قرضہ جات کی سروسنگ کیلئے 132 ارب روپ اور بیرونی قرضوں کی واپسی کیلئے 286 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ریلوے کیلئے ڈیڑھ ارب روپے کی منظوری دی، اپوزیشن کی عدم موجودگی کے باعث انکی تمام دو ہزار سے زائد کتوٹی کی تحریکیں مسترد کر دی گئیں ، نئے بجٹ کے تحت یکم جولائی سے ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ اور دیگر بجٹ سفارشات پر عمل درآمد شروع ہوجائیگا۔ قومی اسمبلی کی تاریخ میں پہلا موقع ہے جب فنانس بل مالیات اور بجٹ کی منظوری کے موقع پر کارروائی کا اپوزیشن نے بائیکاٹ کیا۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں ہوا ۔ وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے 150 مطالبات زر کی منظوری کے بعد اضافی ایجنڈا آئٹم کے تحت فنانس سے متعلق کارروائی تھی۔ اضافی ایجنڈا نمبر 6 کے تحت فنانس بل فنانس بل میں ترامیم پیش کی گئیں ، ترامیم وزیر قانون وانصاف زاہد حامد نے پیش کیں جنہیں اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔ ترامیم کی منظوری کے بعد فنانس بل 2017-18ء پر رائے شماری کرائی گئی جسے یکطرفہ طور پر منظورکر لیا گیا، دفاعی خدمات کے اخراجات پورے کرنے کے لئے مطالبہ زر 9 کھرب 20 ارب روپے پر مشتمل ہے۔ آئندہ مالی سال کیلئے فوج کے زیرانتظام تعلیمی اداروں کیلئے 5 ارب 31 کروڑ 84 لاکھ 85 ہزار روپے کی منظوری دی گئی ہے ‘ دفاعی بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کیلئے 53 کروڑ 50 لاکھ روپے رکھے گئے ہیں۔ دفاعی بجٹ کیلئے 6 مطالبات زر وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈارنے منگل کو قومی اسمبلی میں پیش کئے باضابطہ طور پر ان پر رائے شماری کرائی گئی اور ان کو اتفاق رائے سے منظور کرلیا گیا۔ شعبہ دفاع کا پہلا مطالبہ زر 1 ارب 56 کروڑ 51 لاکھ 29 ہزار روپے کی رقم پر مشتمل ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی/ نامہ نگار) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ 2017-18ء پر جاری بحث کو سیمٹتے ہوئے فنانس بل کے اندر بعض اہم ردوبدل کا اعلان کیا ہے جسکے تحت اسلامی سرمایہ کاری کے طریقہ کار سکوک بانڈ میں 20لاکھ روپے تک کی سرمایہ کاری پر ٹیکس کی چھوٹ دیدی گئی، مزدور کی کم از کم اجرت 15 ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کے15400روپے کر دی گئی، برآمدات کے حامل 5 برآمدی سیکٹرز کیلئے،، فردر ٹیکس،، کی شرح کو 2 فیصد کم کر کے ایک فیصد کر دیا گیا ہے، tamarind gum سیکٹر کو بھی زیرو ریٹنگ کی صورت دیدی گئی ہے، سینیٹ کی سفارش پر بیٹریوں کے ہول سیلرز اور ڈیلرز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کا استثنیٰ دیدیا گیا، کھاد سیکٹر پر فردر ٹیکس ختم کر دیا گیا، فنانس بل میں ایک اور اہم ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت نان پرافٹ آرگنائزیشن اپنے ٹرن اوور کا 15 فیصد سے زائد انتظامی اخراجات کریں گی وہ زائد خرچ شدہ رقم کے دس فیصد کے مساوی انکم ٹیکس ادا کریں گے، نان پرافٹ آرگنائزیشن کے قیام کے ابتدائی تین سال میں مذکورہ بالا شرط کااطلاق نہیں ہوگا تاہم این جی او کا ٹرن اوور دس کروڑ روپے سے ذیادہ نہ ہو،لسٹڈ کمپنیوں پر سالانہ منافع کے چالیس فیصد سے کم تقسیم کی صورت میں بقیہ فرق پر دس فیصد ٹیکس کی تجویز فنانس بل میں شامل کی گئی تھی، اب اس ٹیکس کی شرح کو دس فیصد سے کم کر کے 7.5کر دیا گیا ہے، ای کامرس کی ترقی کیلئے اس سے منسلک اداروں کو ٹرن اوور اور کمیشن دونوں پر ٹیکس کی چھوٹ دی گئی ہے، فلم انڈسٹری کی ترقی کیلئے جلد ایک پیکج کا اعلان کیا جائے گا، اسلامی بینکاری کے تحت آنے والی سکیموں پر مراعات دی گئی ہیں، پولٹری کی صنعت میں ویلیو ایڈیشن کیلئے استعمال ہونے والے خام مال کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے، ماہی پروری کی ترقی کیلئے بھی ٹیکس کی مراعات دیدی گئیں ،قومی اسمبلی میں گزشتہ روز وزیر خزانہ اسحق ڈار نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں اُن ارکانِ قومی اسمبلی کا شکرگذار ہوں کہ جنہوں نے بجٹ تجاویز برائے مالی سال 2017-18 پر بحث میں بھرپور حصہ لیا اور حکومتی پالیسیوں اور کارکردگی کو سراہا۔ مجھے افسوس ہے کہ بعض وجوہ کی بنا پر اپوزیشن ارکان بجٹ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ تاہم تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کی سینٹ میں نمائندگی نے اس بات کو یقینی بنایا کہ بجٹ کے حوالے سے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی تجاویز سامنے آئیں، میں سینٹ کے تمام ارکان کا مشکور ہوں جنہوں نے بھرپور طریقے سے بجٹ سے متعلقہ بحث میں حصہ لیا۔ اگلے مالی سال کیلئے 6فیصد جی ڈی پی کا گروٹھ ریٹ کا ہدف متعین کیا ہے اور انشاء اللہ اس سے اگلے سال ہماری معیشت 7 فیصد سے زیادہ ترقی کرے گی۔ ملک میں غربت اور بے روزگاری میں خاطر خواہ کمی ہوگی، فی کس آمدنی بڑھے گی جس سے معیار زندگی بلند ہوگا اور خوشحالی آئے گی ، انہوں نے کہا کہ ہمیں سینٹ کی طرف سے 276 تجاویز موصول ہوئیں جن میں سے 147 کا تعلق پراجیکٹس اور سالانہ ترقیاتی پروگرام سے تھا ، 129 تجاویز میں سے 75 کلی یا جزوی طور پر منظور کر لی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبوں کے ساتھ مل کر نئے ایوارڈ کی جلد از جلد تکمیل کی خواہاں ہے۔ تاہم اے جے کے، جی بی اور فاٹا کے لیے 3 سے 4 فیصد اور قومی نیشنل سیکیورٹی فنڈکے لیے 3 فیصد ذرائع مھاصل کا قابل تقسیم پولl سے مختص کرنے کے معاملہ پر صوبوںکی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی جو این ایف سی ایوارڈ کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بعض لوگ یہ غلط تاثر پھیلا رہے ہیں کہ پاکستان کے بیرونی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہو گیا ہے یہ غلط ہے، جون 2013 میں جب ہماری حکومت بنی توپاکستان کا بیرونی قرضہ 48.1 ارب ڈالر تھا اور اس وقت سٹیٹ بینک کے پاس جو زر مبادلہ کے زخائر تھے اس کو نکال کر نیٹ بیرونی قرضہ 44.1 ارب ڈالر تھا۔ گذشتہ 4 سالوں کے دوران لیے گئے نئے قرضوں اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کے بعد پاکستان کا بیرونی قرضہ 58.4 ارب ڈالر مارچ 2017 میں تھا۔ اور اسی طرح اگر اس میں سے سٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذکائر نکال دیئے جائیں تو مارچ 2017 میں پاکستان کا Net بیرونی قرضہ 41.9 ارب ڈالر ہے۔ حکومت قبائلی علاقوںسے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاک فوج کی کاوشوں اور فاٹا کے غیورعوام کی قربانیوںکی قدر کرتی ہے۔ وزیراعظم برآمدی پیکج میں حکومتی معاونت کے علاوہ سیلز ٹیکس اور دیگر ڈیوٹیز کی کمی کا بھی اعلان کیا گیا تھا جس سے حکومتی ریونیو کے حجم میں 20 سے 25 ارب روپے سالانہ کی کمی آئے گی۔ اسی طرح صنعتی شعبے کو مناسب نرخوں پر بجلی کی فراہمی کے لیے حکومت 22 ارب روپے کی اضافی سبسڈی بھی دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کچھوٹے کاشتکاروں کے لیے زرعی قرضوں کی لاگت 14-15 فیصد سے کم کر کے 9.9فیصد کر دی گئی ہے۔بجٹ میں اس اسکیم کے تحت ایک فصل کے لیے 50,000 روپے کی حد مقرر کی گئی تھی۔ بہت سے معزز ارکان نے قرضے کی حد بڑھانے کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ ایک مناسب تجویز ہے۔ اس لیے قرضے کی حد بڑھا کر 75000 روپے کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ یہ ششماہی قرضہ ہو گا۔ اور اس طرح پورے سال میں چھوٹے کسانوں کو 150,000 روپے تک کا قرضہ میسر ہو گا۔اس کے علاوہ موجودہ بجٹ میں ڈیزل سے چلنے والے 3سے 36 ہارس پاور کے Peter انجن پر سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔ اس سے خاص طور پر چھوٹے کاشتکاروں کو فائدہ ہو گا جو بڑے انجن خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔اس سلسلے میں مختلف حلقوں سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ڈیزل انجن کے درآمدی پرزہ جات پر عائد ڈیوٹی میں کمی کی جائے۔ مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ Peter انجن کے پرزہ جات پر کسٹم ڈیوٹی 20 فیصد سے کم کر کے 3فیصد کی جار ہی ہے۔ دنیا بھر میں خدمات کا شعبہ ترقی کر رہا ہے۔ بجٹ میں ITکمپنیوں کو خصوصی مراعات دی گئی ہیں۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیز کی سہولت کے لئے سینٹ سفارشات کی روشنی میں اوگرا سے منظور شدہ تمام آئل مارکٹنگ کمپنیز کو ازخود انکم ٹیکس فری سہولت مہیا کردی گئی ہے،کسانوں کو ارزاں نرخوں پر کھاد مہیا کرنے کیلئے کھاد کی پیداوار پر مندرجہ ذیل ٹیکس سہولیات دی جارہی ہیں۔ فریڈ گیس پر سیلز ٹیکس کی شرح کو یکساں کرتے ہوئے 17 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کیا جارہا ہے۔ فریڈ گیس کیلئے ایل این جی پر سیلز ٹیکس کی شرح 17فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کی جارہی ہے،مرغبانی کا شعبہ نہ صرف ملک میں گوشت کی مناسب داموں فراہمی کا کام کررہا ہے۔ بلکہ ملکی معیشت میں سرمایہ کاری اور برآمدات میں اِس کی شمولیت کے امکان کے پیشِ نظر یہ تجویز کیا جارہا ہے کہ مختلف اشیاء جو کہValue added پراڈکٹس میں اِستعمال ہوتی ہیں اُن کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی 20فیصد سے 16 فیصد اور16فیصد سے کم کرکے 11فیصد کردی جائے۔ماہی بانی کی صنعت کے فروغ کیلئے Fish Feed پر سیلز ٹیکس کی شرح کو کم کرکے 10 فیصد کیا جا رہا ہے۔ سرمایہ کاروں کو سہولت دینے کیلئے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم جولائی 2016ء سے پہلے Stock Exchange میں سرمایہ کاری کی جانے والی سیکورٹیزپر Capital Gainsکا نیا (زیادہ ٹیکس ریٹ) لاگو نہیں کیا جارہا ہے۔ سینٹ کی سفارشات پر درآمد شدہ پلاسٹک خام مال کے ذریعے ٹیکس چوری روکنے کیلئے کمرشل امپورٹرز پر ٹیکس کی شرح کو 6فیصد سے کم کرکے 4.5فیصد کیا جارہا ہے جبکہ صنعتی یونٹوں کے لئے اِس شرح کو 6فیصد سے کم کرکے 1.75فیصد کیا جارہا ہے۔لِسٹڈ کمپنیوں پر سالانہ منافع کے 40فیصد سے کم تقسیم کی صورت میں بقایا فرق پر 10فیصد ٹیکس کی تجویز فنانس بِل میں دی گئی ہے۔ Stake Holdersکے مطالبے پر اِس ٹیکس شرح کو 10فیصد سے کم کرکے 7.5فیصد کیا جارہا ہے، ای کامرس یا الیکٹرانک تجارت کی ترویج کے لئے انکم ٹیکس آرڈیننس میں Online Market Placeکا تصور متعارف کیا جارہا ہے اور ایسی entitiesکو ٹرن آور ٹیکس اور کمیشن پر ٹیکس چھوٹ دی جارہی ہے۔ پاکستان کی entertainment انڈسٹری بحالی کی راہ پر گامزن ہے۔ پاکستان کے ڈرامے اور فلم دوبارہ دنیا میں اپنا مقام بنا رہے ہیں۔ حکومت انہیں پاکستان کا Soft Image بحال کرنے کے لیے اہم اثاثہ تصور کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ڈرامہ اور فلم انڈسٹری کے لیے خصوصی پیکیج پیش کیا جائے گا۔ سینٹ کی تجویز پر Non-Profit Organizations کو اپنے قائم کئے جانے کے پہلے تین سالوں میں اس شق سے استثنیٰ دیئے جانے کا اعلان کیا جاتا ہے بشرطیکہ ان کا ٹرن اوور 10 کروڑ سے زائد نہ ہو، وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ہم نے جی ڈی پی کا 5 اعشاریہ 3 کا مشکل ہدف حاصل کرلیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہر سال 90 سے 100 ارب کے اخراجات کئے جاتے ہیں اور آئندہ بھی عسکری آپریشنز کی کامیابی کے لئے فنڈز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ آئندہ مالی سال میں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے بجٹ میں 90 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ اپوزیشن کی غیر موجودگی کی وجہ سے مطالبات زر پر کٹوتی کی تحاریک پیش نہیں کی گئیں۔ وزارت پانی و بجلی پر کٹوتی کی 341 تحاریک اپوزیشن کی عدم موجودگی پر پیش نہ ہوسکیں۔ قومی اسمبلی میں مالیاتی بل کی منظوری کیلئے اضافی ایجنڈا منظور کیا گیا۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے مالیاتی بل میں ترامیم پیش کیں۔ قومی اسمبلی میں آج ضمنی بجٹ کی منظوری دی جائے گی۔ وزیراعظم کی شرکت بھی متوقع ہے۔