تحریک انصاف نے غیر ملکی فنڈز چھپا کر فراڈ کیا‘ الیکشن کمشن: گہرائی تک جائیں گے‘ مطمئن کرنا ہو گا: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ خصوصی نمائندہ ) سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور جنرل سیکرٹری جہانگیر خان ترین کی آف شور کمپنیوں ، منی لانڈرنگ اور غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمشن آف پاکستان غیر ملکی فنڈنگ کی تحیقیقات کرنے کے حوالے سے مجاز اتھارٹی ہے، الیکشن کمشن کے اختیارات پر سمجھوتا نہیں گا، غیر ملکی امداد کی وصولی، فنڈنگ کے ذرائع اور رقوم کا آڈٹ، پی ٹی آئی ان 3نکات پر عدالت کو مطمئن کرے، عدالت نے درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ سے کہا ہے کہ وہ اپنے موکل سے ہدایت لے کر عدالت کو آگا ہ کریں کیا سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل 184/3کے سوموٹو اختیار کے تحت غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمشن سے رپورٹ طلب کرلے یا معاملے کی تحقیقات کے لئے کمشن تشکیل دے دے؟ عدالت معاملہ کی گہرائی تک جائے گی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی۔ الیکشن کمشن کی جانب ایڈووکیٹ ابراہیم ستی نے عدالت میں جواب جمع کرایا جس میں بتایا گیا ہے کہ عمران خان نے گزشتہ 4سال کے دوران الیکشن کمشن کو پارٹی فنڈنگ کے بارے میں کوئی ریکارڈ فراہم نہیں کیا چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل انور منصور سے کہا کہ عدالت گزشتہ سماعت پر فارن فنڈنگ کے بارے میں آپ کے دلائل سن چکی ہے ، زیادہ ایشو آرٹیکل 6(3) کے حوالہ سے ہے، آپ ہمیں بتا ئیں کہ قانون کے مطابق کوئی سیاسی جماعت ممنوعہ ذرائع سے فنڈز نہیں لے سکتی اور اگر کوئی سیاسی جماعت فنڈز لیتی ہے تو پھراس کے ایکشن لینے کے حوالہ سے متعلقہ فورم کونسا ہو گا ،جس پر فاضل وکیل کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ممنوعہ ذرائع سے فنڈز نہیں لئے جاسکتے ، اس طرح کسی بھی پارٹی کے اکائونٹس کے حوالہ سے الیکشن کمشن انتظامی اتھارٹی کے تحت جانچ پڑتال کرنے کا مجاز ہے چیف جسٹس نے ان سے استفسارکیا کہ الیکشن کمشن کس طرح طے کرتا ہے کہ وصول شدہ فنڈز ممنوعہ ہیں یا نہیں، انور منصور نے بتایا کہ جب کوئی جماعت فنڈزوصول کرتی ہے تو اس کی جمع کردہ دستاویزات کی جانچ پڑتال سے یہ بات طے ہوسکتی ہے کہ فنڈزغیرممنوعہ ہیں یانہیں ،لیکن مالیاتی گوشواروں کے آڈٹ کے بعد اگر انتخابی نشان الاٹ ہوجائے تو اکائوٹنس دوبارہ نہیں کھولے جا سکتے ، یہ بات ریکارڈ پرہے کہ الیکشن کمشن نے کبھی بھی ہمارے مالیاتی گوشوروں کومسترد نہیں کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق یک بار گوشوارے منظور ہو نے کے بعد دوبارہ نہیں کھل سکتے ،کیا ممنوعہ فنڈز کے معاملے پر الیکشن کمشن خود کارروائی کرے گا یا اسے کسی دوسرے کی معلومات کی ضرورت ہو گی ،فاضل وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشن آڈٹ رپورٹ کو دیکھ کر ہی کارروائی کا فیصلہ کرسکتا ہے ، الیکشن کمشن کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں تاہم وہ بطورانتظامی اتھارٹی اکائونٹس کا جائزہ لے سکتا ہے ، الیکشن کمشن اور الیکشن ٹریبونل میں فرق ہوتا ہے، ٹریبونل کے پاس نوٹیفکیشن کا اختیار ہوتا ہے ، انور منصور نے اپنے دلائل مکمل کئے توایک استفسارپر انہو ں نے عدالت کوآگاہ کیاکہ عمران کے وکیل نعیم بخاری چھٹیوں پر ہیں ، سماعت کے دوران الیکشن کمشن کے وکیل، ابراہیم ستی نے غیر ملکی فنڈنگ سے متعلق اپنا تحریری جواب جمع کراتے ہوئے عدالت کوبتایا کیا کہ،پولیٹیکل پارٹیز آرڈیننس کے آرٹیکل ) 6(3میں واضح ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ نہیںلے سکتی ، جبکہ پی ٹی آئی نے کبھی بھی اپنے مالیاتی گوشواروں میںیہ ظاہر نہیں کیا کہ اس نے غیر ملکی فنڈز لئے ہیں ، چیف جسٹس نے کہاکہ کوئی سیاسی جماعت ممنوعہ فنڈز کو خود کیوں ظاہر کرے گی، کیا سیاسی جماعت خود الیکشن کمشن کو بتاتی ہے کہ اس کی فنڈنگ کہاں کہاں سے آئی ہے تو ابراہیم ستی نے بتایا کہ ہر سیاسی جماعت کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے مالیاتی گوشواروں میں اپنے فنڈنگ کے تمام ذرائع ظاہر کرے، لیکن یہا ں تحریک انصاف نے فراڈ کرتے ہوئے حقائق چھپائے ہیں ، اس نے اپنے گوشواروں میں غلط آمدن اور اخراجات بتائے، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایسی صورت میں آپ کا یہ کام نہیں تھا کہ تحریک انصاف سے فنڈز کے ذرائع پوچھتے؟ آپ نے کوئی ریکارڈ نہیں مانگا نہ انہوں نے دیا ،آپ کو فنڈنگ کے ذرائع مانگنے چاہیے تھے، فاضل وکیل نے کہا کہ پارٹی فنڈزکا ریکارڈ فراہم نہ کرنا فراڈ ہے، انہوں نے جان بوجھ کر بیرونی فنڈنگ کو چھپایا پی ٹی آئی کے ایک سابق رہنما اکبر شیر بابرنے اس بارے میں الیکشن کمشن میں ایک درخواست دائر کی ہے،عدالت کے ااستفسار پر انہوں نے کہا کہ شاید کوئی بھی سیاسی پارٹی بھی ممنوعہ فنڈز کا ذکر اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کرتی ہے ،فاضل چیف جسٹس نے ان سے پوچھا کہ کیا سپریم کورٹ آئین کے آرٹیکل184 کی شق تین کے تحت اس معاملہ پرکوئی حکم جاری کرسکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ الیکشن کمشن نے اکبر ایس بابرکی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ کواس معاملہ پر کارروائی کا اختیار حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمشن نے یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہونے کے باعث درخواست پر کارروائی 22 جون تک ملتوی کردی ہے ، یہ معاملہ نہ صرف الیکشن کمشن کے دائر اختیار میں آتا ہے بلکہ الیکشن کمشن اس حوالہ سے ازخود نوٹس بھی لے سکتا ہے ،الیکشن کمیشن بطور انتظامی ا تھارٹی اس معاملہ کی انکوائری یا تادیبی کارروائی کرسکتا ہے لیکن وہ بذات خود عدالت یا ٹریبونل نہیں ہے سماعت کے دوران حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کیلی فورنیا کی 195 کارپوریشنوںسے فنڈز لئے ہیں ، یہ تمام تفصیلات امریکہ کی سارا ویب سائٹ پر موجود ہیں، پی ٹی آئی کی ایل ایل سی کمپنی نے بھارتیوں سمیت مختلف غیر ملکیوں سے بھی فنڈز حاصل کئے ہیں، سپریم کورٹ چاہے تواسی کمرہ عدالت میں ہی ویب سائٹ کھول کر تفصیلات چیک ہوسکتی ہیں ، چیف جسٹس نے ان سے کہاکہ اس معاملہ کوالیکشن کمشن کو بھجوا دیناچاہیے اکرم شیخ نے کہا کہ وہ اس حوالہ سے اپنے موکل سے مشاورت کرکے عدالت کوآگاہ کریں گے لیکن اگریہ معاملہ الیکشن کمشن کو بھجوا دیا گیا تو پتہ نہیں کب تک کیس چلے ، چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ آپ اپنے موکل سے ہدایات لے کرعدالت کوبتادیں ،جب ہم معاملہ الیکشن کمشن کو بھجوائیں گے تو مدت کا بھی تعین کردیا جائے گا ،بعد ازاں مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی۔الیکشن کمشن نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے خلاف انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی سے متعلق کیس کی سماعت 24 جولائی تک ملتوی کر دی۔ چف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی کمشن نے سماعت کی۔ سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکلاء نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا تحریری حکم نامہ پیش کر دیا اور کہا کہ اسی نوعیت کے معاملے میں انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں 6 جولائی کو جواب داخل کرانا ہے۔ اس لئے کیس کی سماعت ملتوی کی جائے۔