چودھری شوگر ملز کا ریکارڈ بدلا‘ خفیہ خطوط میڈیا میں دئیے‘ نیب نے ممبر کو شوکاز نوٹس دیا‘ جے آئی ٹی کے الزامات
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں+ نمائندہ خصوصی) جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں ایس ای سی پی، نیب ، ایف بی آر، وزارت قانون و انصاف اور آئی پی پی کے خلاف لرزہ خیز انکشافات کئے ہیں۔ جے آئی ٹی نے درخواست میں الزام لگایا ہے ایس ای سی پی سے چودھری شوگر مل اور شریف فیملی کی انکوائریوں کا ریکارڈ طلب کیا ہے لیکن ایس ای سی پی نے شریف فیملی کے خلاف کبھی بھی انکوائری کرنے سے انکار کیا۔ گواہ نے بتایا کہ چیئرمین ایس ای سی پی نے شریف فیملی کا انکوائری ریکارڈ تلاش کرنے سے منع کیا۔ چیئرمین ایس ای سی پی کے حکم پر چودھری شوگر مل کی تحقیقات کا ریکارڈ تبدیل کیا گیا۔ ایس ای سی پی کے علی عظیم نے چودھری شوگر مل کی تحقیقات کو گزشتہ تاریخوں سے بدلوایا۔ علی عظیم کو ہی چیئرمین ایس ای سی پی ‘ جے آئی ٹی کیلئے نامزد کیا تھا علی عظیم کی جے آئی ٹی میں شمولیت کا مقصد تحقیقات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ وزارت قانون نے بیرون ملک تحقیقات کیلئے خط کے جواب میں 5 دن تاخیر کی۔ جے آئی ٹی رکن بلال رسول اور اہلخانہ کے فیس بک اکائونٹ آئی بی کی مدد سے ہیک کئے گئے۔ آئی بی اہلکار بلال رسول کے گھر کے قریب چکر لگاتے نظر آئے۔ آئی بی اہلکاروں نے بلال رسول کے ملازم کو دھمکایا، نیب نے جے آئی ٹی ممبر عرفان نعیم منگی کو 25 اپریل کو شوکاز نوٹس جاری کیا۔ نیب نے عرفان نعیم منگی سے 15 روز میں جواب طلب کررکھا ہے نیب کا عرفان نعیم منگی کو شوکاز نوٹس توجہ ہٹانے کیلئے ہے۔ ایک ممبر اسمبلی نے جے آئی ٹی کو قصائی کی دکان کا کہا۔ ایف بی آر سے شریف فیملی کے 1985 ء سے ریکارڈ طلب کیا ایف بی آر نے شریف فیملی کا صرف 5 سال کا ریکارڈ ہی دیا۔ گواہان کو فریقین کی جانب سے بیانات لکھائے جارہے ہیں طارق شفیع کو چیف ایگزیکٹو اتفاق گروپ نے پیشی سے پہلے وزیراعظم ہائوس جانے کی ہدایت کی۔ طارق شفیع کو وزیراعظم ہائوس کی ہدایات کے مطابق بیان دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ جے آئی ٹی کی اداروں سے خفیہ خط و کتابت میڈیا کو جان بوجھ کر جاری کی جاتی ہے۔ وزیراعظم کی طلبی کا نوٹس خفیہ تھا۔ وزیر اطلاعات نے میڈیا میں تصدیق کی خط و کتابت پبلک کرنے کا مقصد تحقیقاتی عمل کو متنازعہ بنانا ہے۔ اطلاعات کو یوں عام کرنا گواہان کے سکیورٹی خدشات کو بڑھاتا ہے۔ این این آئی کے مطابق نیب حکام نے واضح کیا ہے نیب کی طرف سے جے آئی ٹی میں شامل رکن عرفان منگی سمیت 100کے قریب افسران کو شو کاز نوٹس 25اپریل کو جاری کئے گئے ٗعرفان منگی کوشوکازکاکسی طور بھی جے آئی ٹی کارروائی سے تعلق نہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق نیب حکام نے بتایا عرفان منگی کیساتھ ڈی جی نیب ملتان اورکراچی کوبھی شوکازنوٹس دیے گئے۔ نیب حکام نے بتایا عرفان منگی سمیت نیب کے کئی افسران کی تعیناتی کاکیس سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے ٗاسی کیس میں نیب کے چار ڈی جیز برخواست بھی ہو چکے ہیں۔نیب حکام کے مطابق عرفان منگی کوشوکازنوٹس ان کی نیب میں تعیناتی میں خامیوں پر دیا گیا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے کہا ہے جے آئی ٹی کو تمام ریکارڈ بروقت مہیا کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق کچھ ریکارڈ لاہور سے آنا تھا فراہمی میں ایک دن کی تاخیر ہوئی الزامات پر تفصیلی جواب ایک دو روز میں جمع کرایا جائے گا‘ قانون کے تحت ایف بی آر صرف 5 سال کا ریکارڈ رکھنے کا پابند ہے۔ اس کیس میں 15 سے 20 سال پرانا ریکارڈ فراہم کیا گیا۔ انٹیلی جنس بیورو نے جے آئی ٹی کے الزام پر ردعمل میں کہا ہے آئی بی پیشہ ورانہ ادارہ ہے۔ آئی بی سیاسی امور میں مداخلت نہیں کر رہا۔ جے آئی ٹی اور اس کے امور سے آئی بی کا کوئی تعلق نہیں‘ آئی بی کی توجہ داخلہ سکیورٹی اور پیشہ وارانہ امور پر ہے۔ وزارت قانون واقعات کا جواب جاری نہیں کیا گیا۔ نمائندہ خصوصی کے مطابق ایس ای سی پی کے ذرائع نے اس بات کی تردید کی ہے کہ حماد جاوید کو جے آئی ٹی نے واپس بھیج دیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ حماد جاوید ان 4 افسروں کی ٹیم میں شامل ہیں جو جے آئی ٹی کے ایس ای سی پی سے تعلق رکھنے والے افسر بلال رسول کی مدد کے لئے تعینات ہیں اور ادارے سے ریکارڈ کی فراہمی اور دوسرے امور میں بلال رسول کی اعانت کرتے ہیں۔ ایس ای سی پی کے ذرائع نے بتایا ہے کہ ادارہ سپریم کورٹ میں اپنا جواب آج داخل کرا دے گا۔ دریں اثناء ایف بی آر نے بھی جے آئی ٹی کے الزامات کی تردید کی ہے اور تحریری جواب داخل کرایا جائے گا۔
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ صباح نیوز) پانا مہ معاملے کی تحقیقات کیلئے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کو بدنام کرنے، تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کے معاملے پرتحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں دائر کرنے کیلئے درخواست تیار کرلی ہے۔ عدالتی وقت ختم ہونے کے باعث پٹیشن دائر نہ ہوسکی آج دائر کردی جائیگی۔ ذرائع کے مطابق درخواست کے متن میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف اور اسحاق ڈار پانامہ تحقیقات میں رکاوٹ بن رہے ہیں ۔وفاقی وزرا ،ترجمان اور وزیر اعظم کے نامزد رہنما جے آئی ٹی کو ٹارگٹ کررہے ہیں، (ن) لیگی وزرا نے جے آئی ٹی ارکان اور ججوں کے خاندانوں کو بھی دھمکیاں دیں، اس مہم کا مقصد جے آئی ٹی کی تحقیقات اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے۔صباح نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے پانامہ عمل در آمد کیس کی گذشتہ کارروائی کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے جے آئی ٹی کے سر براہ نے متفرق درخواست میں تحقیقات میں درپیش رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے اور ان رکاوٹوں کی وجہ سے جے آئی ٹی کی تحقیقات میں تاخیر ہو سکتی ہے، ایک صفحہ پر مشتمل عدالت عظمی کے حکم نامے میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی کے 60 روز کی ڈیڈ لائن میں سے 30 روز گزر چکے ہیں۔ عدالت نے حکم دیا ایڈیشنل اٹارنی جنرل جے آئی ٹی کے سر براہ کی درخواست پر تحریری جواب دیں۔ عدالت کا کہنا تھا حسین نواز کی تصویر تصویر لیک ہونے کے معاملے پر جے آئی ٹی سر براہ پہلے ہی رپورٹ دے چکے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل جے آئی ٹی کی حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے حوالے سے جمع کرائی گئی رپورٹ کا جائزہ لیں اور اگر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کہیں تو رپورٹ کوعام (پبلک)کیا جائے۔ عدالت نے کہا رپورٹ پبلک کرنے پر رپورٹ کی کاپی حسین نواز کے وکیل کو بھی فراہم کی جائے۔