نوجوان قیادت… پانامیوں اور سونامیوں کا مقابلہ
وفاقی وزیر احسن اقبال کہتے ہیں کہ مریم نواز کا سیاست میں آنا قبل از وقت ہے۔ یہ جملہ مریم کے خلاف ہے یا اس کے حق میں ہے؟ ہم تو سمجھتے تھے کہ وہ بڑی مدت سے سیاست میں ہیں۔ ابھی عملی سیاست میں بھی آ جائیں گی۔ کچھ لوگ ان کو آئندہ وزیراعظم کے منصب پر دیکھ رہے ہیں۔ نواز شریف کے جانشین کے طور پر تو وہ بہت مصروف ہیں۔ ویسے بھی وہ حسین نواز اور حسن نواز سے زیادہ موزوں ہیں۔ حسین اور حسن پہلے ہی سیاست سے بہت دور ہیں۔ اب جے آئی ٹی نے ان کو ’’لیڈر‘‘ بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔
برادرم احسن اقبال کو اپنے بیان پر نظرثانی کرنا چاہیے۔ ایک نوجوان قیادت ابھر کے سامنے آئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز شریف، ن لیگ کی مریم نواز بھی ہیں۔ مریم کے سامنے بے نظیر بھٹو کی مثال ہے۔ وہ عظیم بھٹو کی بیٹی تھیں۔ مریم نواز شریف کی بیٹی ہیں۔ نواز شریف کا مقابلہ بھٹو صاحب سے نہیں کیا جا سکتا۔ مگر مریم کا مقابلہ بے نظیر بھٹو سے کیا جا سکتا ہے۔ مقابلے کے بجائے موازنہ کا لفظ زیادہ مناسب ہے۔ بے نظیر بھٹو ایک بڑی لیڈر تھیں اور مریم نواز کو ابھی بہت کچھ ثابت کرنا ہے۔
احسن اقبال کے بعد ترجمان مسلم لیگ ن نے بہت عجیب بیان دیا ہے۔ ’’مریم نواز کے بیرون ملک جانے کی خبریں گمراہ کن ہیں‘‘ ن لیگ کے ترجمان نے نجانے کس کی ترجمانی کی ہے۔ بیرون ملک عورتیں جاتی آتی رہتی ہیں۔ مریم نواز باشعور اور سلیقہ مند خاتون ہیں۔ بہرحال وہ سیاست میں آتی ہیں تو جاتی بھی ہوں گی۔ مجھے لفظ گمراہ کن پر بھی اعتراض ہے۔ اس لفظ کے معانی سے شاید ترجمان صاحب آشنا نہیں ہیں۔ یہ ترجمانی تو نہیں مگر وہ مریم نواز کی ترجمانی کرتے ہوئے بد حواس ہو گئے ہیں۔
مجھ سے پوچھا گیا یہ بلاول بھٹو اور حمزہ شہباز شریف اور مریم نواز کی طرح تحریک انصاف کے کسی نوجوان کا نام نہیں لیا۔ وہ ’’نوجوان‘‘ عمران خان کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے۔ آپ عمران خان کی عمر پر نہ جائیں۔ وہ ابھی جوان بلکہ نوجوان ہیں۔ حفیظ جالندھری نے یہ نظم عمران خان کے لیے لکھی تھی:
ابھی تو میں جوان ہوں
عمران ’’جواں‘‘ کی بات سے بہت آگے ہیں۔ وہ کبھی بوڑھے نظر نہیں آئے۔ لہٰذا وہ بلاول او رمریم کا مقابلہ کریں گے مگر ہم نے دیکھا کہ اپوزیشن کے کسی دوسرے سیاستدانوں کی باتوں میں کچھ نہ کچھ غیرسیاسی یعنی علمی و ادبی انداز بھی نظر آ جاتا ہے۔ عمران خان نے ابھی کوئی ایسی بات نہیں کی کہ آدمی اس جملے کے قریب ٹھہر جائے۔ وہ دلیری سے بولتے ہیں۔ دلیری کے ساتھ دلبری نہ ہو تو مزہ نہیں آتا۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ سونامیوں اور پانامیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ سونامی عمران کے حوالے سے اور پانامہ نواز شریف کے حوالے سے ہے۔ … یہ ایک خوبصورت اور جامع جملہ ہے۔
گورنر خیبر پی کے ظفر اقبال جھگڑا اور تحریک انصاف کی شیریں مزاری کا جھگڑا ہو گیا۔ جھگڑا صاحب پہلے تو یہ بتائیں کہ ان کی برادری کا نام جھگڑا کیسے پڑا؟ کیا وہ جھگڑالو بندے ہیں۔ شیریں مزاری نے اونچی آواز میں ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تمہاری گاڑی کی نمبر پلیٹ نہیں ہے اور تم بدتمیزی سے دوسروں کی گاڑیوں کو ٹکریں مارتے پھرتے ہو۔ شیریں بی بی کو معلوم نہیں کہ کسی طرح کے حاکم کے لئے کوئی قانون نہیں ہوتا۔ گورنر کے لئے سب کچھ معاف اگرچہ آج کل گورنر کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ کیا مذاق ہے اس طرح کے ’’حاکم‘‘ کو گورنر کیوں کہا جاتا ہے۔ گورنر تو ہم نے صرف دو دیکھے ہیں۔ عبدالرب نشتر اور ملک امیر محمد خان نواب کالا باغ۔ ورنہ پنجاب میں لطیف کھوسہ بھی گورنر رہے۔ گورنر کالا باغ نے اپنی حکومت میں ایک فیصلہ واپس لیا۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور کے درویش اور محبوب پرنسپل ڈاکٹر نذیر احمد کے تبادلے کے احکامات واپس لئے۔ گورنمنٹ کالج کے طلبہ و طالبات کا ایک ہی نعرہ تھا۔ ہمارا باپ واپس کرو۔
محمود ظفر اقبال ہاشمی نے ایک کتاب بڑی محبت اور دلیری سے لکھی ہے۔ جس کا نام ہے ’’میں جناح کا وارث ہوں‘‘ کتاب پڑھنے کے بعد ہم نے بھی مان لیا کہ ہاشمی صاحب واقعی جناح کے وارث ہیں اور جو بے چارے ابھی تک ہر لحاظ سے لاوارث ہیں۔ ان کا کیا بنے گا۔ یہ کتاب بہت زبردست ہے اور اس لائق ہے کہ اسے غور سے پڑھا جائے۔ کتاب کا انتساب توجہ کو اپنی طرف مبذول کرنا ہے۔ اس سے آپ مصنف کا جذبہ اور ارادہ معلوم کر سکیں گے۔
اپنے وطن عزیز پاکستان کی مٹی کے نام جہاں کسی دوسرے جناح کا خمیر نہیں اٹھنے دیا گیا۔
یہ کتاب مجھے ستارہ کومل نے بھیجی ہے