• news
  • image

یوم القدس اور فلسطین کی حمایت کی ضرورت

بانی انقلاب اسلامی ایران امام خمینی (رح) نے رمضان المبارک کے آخری جمعہ یعنی جمعہ الوداع کو یوم القدس کا نام دیا اور فرمایا: میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ رمضان المبارک کا آخری جمعہ فلسطینی عوام کی قسمت بدل سکتا ہے۔ اس دن کو یوم القدس کے طور پر مناتے ہیں مختلف پروگراموں کے ذریعے فلسطینی مسلمان بھائیوں کے قانونی حقوق کی حمایت کے لئے پوری دنیا کے مسلمانوں کی بین الاقوامی یکجہتی کا اعلان کیا جاتا ہے" اس وقت سے آج تک اسلامی ممالک اس اہم دن کو منانے اور اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے سلسلے میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لئے ریلیاں منعقد کرتے اور صہیونی حکومت کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔
درحقیقت اسلامی ممالک کے اتحاد اور مشترکہ مقاصد کی حمایت آج کے دور کی ناگزیر ضرورت ہے۔ عالم اسلام دولت اور توانائی کے عظیم ذخائر سے مالامال ہے جن کو کام میں لا کر نہ صرف اپنے اندرونی جھگڑوں پر قابو پا سکتا ہے، بلکہ عالمی سیاسی نظام میں اپنے لئے ایک مناسب حیثیت کا انتظام بھی کر سکتا ہے. آبادی کے لحاظ سے ڈیڑھ ارب نفوس کے ہوتے ہوئے یعنی دنیا کی کل آبادی کا 23 فی صد حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ دنیا کے تیل، گیس اور دوسرے معدنیات کا بڑا حصہ اسلامی ممالک کے خطے میں موجود ہے۔ تزویراتی محل وقوع بھی اسلامی ممالک کو ممتاز بناتا ہے۔
لیکن افسوس کہ اسلامی ممالک اپنی صلاحیتوں سے استفادہ اور امن و دوستی کے فروغ کے بجائے اندرونی تنازعوں اور جھگڑوں میں پڑے ہیں اور شام، افغانستان، یمن اور عراق جیسے اسلامی ممالک میں خونریزی مسلسل جاری ہے۔ درحقیقت وہ لوگ جو مسلمانوں کے اصلی دشمن ہیں اپنے عزائم، سازشوں اور منصوبوں سے اسلامی معاشروں کے درمیان اختلاف اور تفرقے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ اسلام دشمن اسلامی ممالک کے اتحاد اور ترقی کو اپنے دنیا پر غلبے کے راستے میں بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں اور ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف دسیسہ کاریوں میں مصروف رہتے ہیں۔ دشمنان اسلام اور زیادہ واضح طور پر قدس کی غاصب حکومت کے حامیوں کے موجودہ حساس حالات میں سیاسی، معاشی، تبلیغاتی اور نفسیاتی حملوں اور امت اسلامی کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے کی تمام تر مساعی، جن کا بنیادی مقصد تو عالم اسلام کی نظریں صیہونی حکومت کے جرائم سے توجہ ہٹانا ہی ہے، اب بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہیں۔ ان کے لئے عراق، شام، فلسطین، ایران یا پاکستان میں کچھ فرق نہیں ہے۔ عالم اسلام میں ہر اس جگہ جہاں کچھ راستہ ہموار ہے یا موقع نصیب ہو، القاعدہ اور داعش جیسے بنیاد پرست تکفیری گروپوں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کام میں لائیں گے۔
اس وقت اسلامی دنیا کے اصلی مسائل ہیں۔ تمام اسلامی تنظیمیں ، مخصوصا اسلامی تعاون تنظیم، جس کا کام زیادہ سے زیادہ اسلامی ممالک کو یکجہتی فراہم کرنا تھا وہ اپنے ہدف و مقصد میں ناکام ہے اور ملت اسلامیہ کی خواہشات پر پورا اترنے سے قاصر ہے۔
صہیونی ریاست کی جنگی پالیسی کی بنیاد غیر قانونی حملہ اور قبضہ ہے۔ یہ غاصب ریاست کئی مرتبہ اپنے ارد گرد کے ممالک پر حملہ آور ہو چکی ہے. اب دنیا کے تمام ممالک اور بین الاقوامی ادارے اس امر سے واقف ہیں کہ اس ریاست نے بعض سپر طاقتوں کی حمایت حاصل کر کے اب تک اقوام متحدہ کی سو سے زیادہ قراردادوں کو پس پشت ڈال رکھا ہے۔
فلسطین کا تنازعہ دنیا کے دیرینہ اور المناک ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ 60 سال سے زیادہ عرصہ گذر گیا۔ خلیجی ممالک اس واقعے کے درد کو دیکھ رہے ہیں کہ جس کے تحت ایک ملت کی سرزمین پر قبضہ کر لیا گیا۔ صہیونی ریاست کا سرزمین فلسطین پر قبضہ اس علاقہ میں جنگوں اور بحرانوںکا نقطہ آغاز تھا جو کہ اب تک جاری ہے۔
ایک قوم کی نقل مکانی اور لاکھوں لوگوں کا مہاجر کیمپوں میں رہنا اس امر کا باعث بنا ہے کہ فلسطین کی چند نسلیں نقل مکانی پر مجبور ہیں ایسے لوگ ہیں جن کی سب سے بڑی تمنا اپنی ماں یعنی سرزمین کی آزادی ہے۔
امام خمینی (رح) نے ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو اس لئے یوم القدس کا نام دیا تا کہ دنیا والے اس نکتے کی طرف متوجہ رہیں کہ اسلامی ممالک اپنے مسائل اور مشکلات کو حل کرنے کو اہمیت دیتے ہیں اور بے حس نہیں ہیں۔
روز قدس، فقط قدس کے ساتھ مربوط نہیں ہے بلکہ یہ مظلوموں کا ظالموں سے مقابلے کا دن ہے اور مظلوموں کا صہیونی مظالم سے بدلہ لینے کا دن ہے۔
ایران اور پاکستان کی آبادی تقریباً 280 ملین افراد پر مشتمل ہے اس لحاظ سے ان دو ممالک کو اسلامی دنیا میں خاص مقام حاصل ہے لہٰذا ہر ملک فلسطین کے لوگوں کو ان کے حقوق دلانے اور صہیونی ریاست کا مقابلہ کرنے کےلئے اپنا موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسلامی دنیا کی یکجہتی اور وحدت کی تمنا کے ساتھ

epaper

ای پیپر-دی نیشن