کرکٹ، دو قومی نظریہ اور نواز شریف
کرکٹ کبھی میں نے کھیلا نہیں اور نہ ہی کبھی کرکٹ میچ دیکھنے کا جنون طاری ہوا اسی طرح ان تجزیہ کاروں کی طرح تبصرہ بھی نہیں کرتا جو کرکٹ ٹیم کو کھیل کے بارے میں لائیو مشورے دے کر اپنی ’’ مہارت‘‘ کے دعوے کرتے ہیں لیکن جب کبھی پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ میں ’’ٹاکرہ‘‘ ہوتا ہے تو دوسرے پاکستانیوں کی طرح میرے اندر کا پاکستانی بیدار ہو جاتا ہے اور پھر ہر قیمت پر پاکستان کی فتح کے لئے میچ دیکھنا چاہتا ہوں پچھلے چار سال کے دوران شاید ہی خوشی کا کوئی لمحہ آیا ہو اگر آیا بھی ہے تو اسے اپوزیشن نے چھین لیا لیکن 18جون 2017 ء میری زندگی کے خوشگوار ایام میں سے ایک ہے جو سالہاسال تک یاد رہے گا یہ دن پاکستان کی تاریخ میں اس لحاظ سے یادگار دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے پوری قوم کو بے پناہ خوشی دی پاکستان نے بھارت کو عبرتناک شکست دے کر سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں منقسم قوم کو متحد ہ قوم بنا دیا اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور1992ء میں ورلڈ کپ جیتا گیا تورمضان المبارک تھا اب کی بار بھی دنیا کی بہترین کرکٹ ٹیموں کے درمیان مقابلہ میں پاکستان نے بھارت کو شکست دے کر چیمپینئز ٹرافی جیتی تو رمضان المبار ک کا مہینہ ہے گویا یہ سب کچھ رمضان المبارک کی برکات کے طفیل ہی ہوا مسلم لیگی حلقوں میں تو یہ بات برملا کہی جارہی ہے ورلڈ کپ میں کامیابی کے وقت بھی محمد نواز شریف وزیر اعظم تھے اور اب بھی ان ہی کے دور میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے وزیر اعظم محمد نواز شریف جن کا چاروں طرف سے ’’گھیرا ‘‘ تنگ کر دیا گیا ہے ان کے’’ سیاسی مستقبل ‘‘ کے بارے میں بھی ان کے ہم نوا سیاسی تجزیہ کار کھل کر ان کے’’ چل چلائو‘‘ کی باتیں کرنے لگے ہیں وہ رمضان المبار ک کا آخری عشرہ سکون کے ساتھ گذارنے کے بعد برطانیہ چلے گئے ہیں جہاں وہ اپنے نواسے جنید صفدر کی گریجویشن کی تقریب میں شرکت کریں گیانہوں نے کہا ہے کہ احتساب نہیں مذاق ہو رہا ہے اصل جے آ ئی ٹی اگلے سال لگے گی میں جس نواز شریف کو پچھلے 30،35سال سے جانتا ہوں وہ سازشوں کو ناکام بنانے اور سازشیوں کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے اسے 2014ء کو اقتدار سے ہٹانے کی بہت بڑی سازش کی گئی جسے ان کے مضبوط عزم اور چوہدری نثار علی خان جیسے ساتھیوں نے ناکام بنا دیا اب پھر ان کو سیاست سے آئوٹ کرنے کا ماسٹر پلان بنایا گیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کو سیاست سے آئوٹ کرنے کی سازش کامیاب ہوتی ہے یا ایک بار ناکامی سے دوچار ہوتی ہے آنے والے دنوں میں مطلع صاف ہو جائے گا ۔کرکٹ میچ میں کامیابی کی خو شی پاکستان بھر میں تو منائی جا ہی رہی ہے لیکن ’’منی پاکستان‘‘ مقبوضہ کشمیر میں جس طرح پاکستان کی کامیابی کا جشن منایا گیا ہے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی پاکستان نے جس طرح بھارت کا ’’تکبر‘‘ خاک میں ملایا ہے اسے مدتوں یاد رکھا جائے گا خوشی کے ان لمحات میں مرد مجاہد حافظ محمدسعید نظر بندی کی زندگی بسر کر رہے ہیں آج بابائے صحافت مجید نظامی زندہ ہوتے تو ان کی خوشی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا۔ آج حافظ محمد سعید کی کمی ان کے قریبی ساتھی جماعۃ الدعوۃ کے سیاسی امور کے سربراہ حافظ عبدالرحمن مکی پوری کر رہے ہیں وہ اہل صحافت کو بیدار کر رہے ہیں اور انہیں مسئلہ کشمیر کو ’’نیوز بلیٹن اور ٹاک شو‘‘ میں نمایاں پوزیشن پر رکھنے پر زور دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ’’ بھارت سے دوستیاں بڑھائی جا رہی ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کی حمایت کرنے سے روکا جا رہا ہے ، کشمیریوں کے جذبات بلندیوں کو چھو رہے ہیں ، کشمیری اپنے پیاروں کو پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر سپردخاک کررہے ہیں ، کشمیر یوں کے لوگ ، حریت کے تمام دھڑے ، 8سال سے 80سال تک کے لوگ پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الا للہ کے نعرے پر متفق ہو چکے ہیں،حکومت کشمیرپالیسی پارلیمنٹ میں کیوں پیش نہیں کر رہی ، کشمیری پاکستانی جھنڈے لہرا رہے ہیں۔کشمیری فیصلہ دے چکے ہیں، حافظ محمد سعید کی نظر بندی بیرونی دبائو کا نتیجہ ہے، سال 2017کو کشمیر کے نام کرنے پر انہیں نظر بند کر دیا گیا ، صحافی اپنے قلم کے ذریعے کشمیر کی تحریک کے لیے کردار ادا کریںحافظ عبدالرحمن مکی کا کہنا ہے ’’ مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی عروج پر ہے۔ ہندوستانی فوج کے مظالم انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ مظلوم کشمیری نماز باجماعت و تراویح سے محروم ہیں۔ رمضان المبارک میں 18کشمیری نوجوانوں کو شہید کردیا گیا، لیکن ہماری حکومت، دفتر خارجہ خاموش ہے۔ پاکستان میں غیر محسوس انداز میں دو قومی نظریہ کے خلاف سرگرم عمل عناصر کی سازشوں کو بے نقاب کرنے کے لئے نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان فائونڈیشن کام کر ہی رہی ہے ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جانے والے حالیہ چمپینئز ٹرافی میچ اور ’’منی پاکستان‘‘ مقبوضہ کشمیر میں منائے جانے والے جشن اور گائو ماتا کھانے کے جرم میں بھارتی مسلمانوں کے حشر کی ایک جھلک دکھا دی جائے تو انہیں دو قومی نظریہ سمجھ آجائے گا ۔ اس وقت پاکستان کے عوام خوشی کے جذبات میں سرشار ہیں ان سے یہ خوشی چھیننے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
پاکستان کو ایک بار پھر محاذ آرائی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جو پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپیٹنے کا باعث بن سکتی ہے حکومت اور اپوزیشن بالخصوص تحریک انصاف کے درمیان پائی جانے والی شدید نوعیت کی محاذ آرائی نے پوری قوم کو انجانے خطرات سے پریشان کر رکھا ہے اپوزیشن کی کوئی سیاسی جماعت موجودہ صورت حال میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کی حکومت گراسکتی ہے اور نہ ہی انتخابی معرکہ میں انہیں شکست سے دوچار کر سکتی ہے اس لئے اپوزیشن کی تمام جماعتیں وزیر اعظم محمد نواز شریف کی ’’عدالت سے نااہلی‘‘ کی منتظر ہیں اس بات میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ آئندہ چند ہفتوں میں سیاسی منظر پر کیا ہونے والا ہے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹانے کی خواہش مند قوتوں کو اس بات کا اندازہ نہیں کہ انہیں انتخابی عمل سے باہر کیا گیا ۔ وہ کس قدر’’ خطرناک ‘‘ ثابت ہو سکتا ہے ۔ نواز شریف کو ’’انتخابی عمل ‘‘ آئوٹ کرنے کی کوشش ان کی مقبولیت میں اضافہ کا باعث بن سکتی ہے ۔ شاید کچھ لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ نواز شریف سے بھرے میلہ میں’’ کمبل‘‘ چھننے لگا ہے لہذا ’’کپتان ‘‘ کے محل کے باہر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے کے خواہش مند لوگوں کی قطار لگ گئی ہے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی اکثریت پنجاب کے پیپلز پارٹی کے ان رہنمائوں کی ہے جن کو اب پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے کامیابی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا انہوں نے پیپلز پارٹی سے اپنی نصف صدی کی وابستگی ختم کر دی سیاسی مکتب میں پارٹی تبدیل کرنا انتہائی معیوب تصور کیا جاتا ہے اور پھر جس پارٹی نے کسی شخص کو عزت ومقام دیا ہو اسے مشکل وقت میں پارٹی نہیں چھوڑنا چاہیے ۔ سینیٹر بابراعوان میرے زمانہ طالبعلمی سے دوست ہیں ان سے ذاتی نوعیت کے تعلقات ہیں میں ان کی صلاحیتوں کا معترف ہوں ان کا بنیادی طور پر دائیں بازو سے تعلق ہے وہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں اللہ تعالیٰ نے ’’قلم و زبان ‘‘ کی دولت عطا کی ہے اب تو ان کا شمار امیر ترین سیاست دانوں میں بھی ہوتا ہے ۔ان کی پیپلز پارٹی والوں سے شروع دن سے نہیں بنتی تھی انہوں نے پیپلز پارٹی میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے قریبی تعلق کی وجہ سے 21سال گذار دئیے انہیں اس وقت پیپلز پارٹی کو خیر باد کہہ دینا چائیے تھا جب انہوں نے سید یوسف رضا گیلانی کو بچانے کے لئے ان کا ’’جرم ‘‘ اپنے سر لینے سے انکا رکر دیا تھا لیکن وہ پچھلے چار سال سے تذبذب کا شکار رہے پیپلز پارٹی کو خیر باد کہنے سے چند روز قبل تک ان کی آصف علی زرداری سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری تھا وہ ان کے سامنے ’’کپتان ‘‘ کی وکالت تو کرتے تھے لیکن ان کی گفتگو سے یہ ظاہر نہیں ہوا وہ ان کو الوداع کہنے والے ہیں وہ مسلم لیگ (ن) کے اہم ستون چوہدری نثار علی خان سے بھی ملاقاتیں کرتے رہے ہیں وہ ان ملاقاتوں کو ’’ذاتی‘‘ نوعیت کا قرار دیتے رہے ہیں ان کا پیپلز پارٹی میں زیادہ دیر گذارہ مشکل تھا لیکن آصف علی زرداری کی قربت نے انہیں پیپلز پارٹی میں اہمیت کا مقام دئیے رکھا ۔سینیٹر بابر اعوان ایک سیاست دان ہیں پی ٹی آئی میں شمولیت ان کا سیاسی فیصلہ ہے وہ میرے لئے پی ٹی آئی میںجانے کے باوجود آج بھی اسی طرح دوست ہیں جب انہوں نے مسلم لیگ(جونیجو) چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن سچی بات یہ ہے مجھے ان کا پارٹی تبدیل کرنے کا فیصلہ اچھا نہیں لگا ۔ قمر الزماں کائرہ سے کسی نے پارٹی تبدیل کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ’’ افراد کوئی اہمیت نہیں رکھتے پارٹی اہمیت رکھتی ہے اگر ایسا مرحلہ آیا تو پارٹی چھوڑنے کی بجائے گھر بیٹھ جانے کو ترجیح دوں گا ‘‘ کاش میرے دوست ڈاکٹر بابر اعوان بھی کچھ ایسی ہی سوچ رکھتے عزت و شہرت کس چیز کی کمی تھی ان میں ،اپنا قائد ہی تبدیل کر لیا ۔ ڈاکٹر بابر اعوان جس جگہ جاتے ہیں وہاں چھا جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اگرچہ انہیں ’’کپتان‘‘ کی قربت حاصل ہے لیکن وہ جس پارٹی میں شامل ہوئے ہیں وہاں انہیں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں اور مختلف پارٹیوں کے ’’ناراض ‘‘ لوگوں کے ہجوم میں اپنے لئے مشکل سے جگہ بنانا ہوگی ’’کہیں کی مٹی اور کہیں کاگارا‘‘ سے بننے والے ’’سیاسی گھروندے‘‘ میں چھا جانا ان کے لئے ناممکن نہیں لیکن انہیں یہ بات ضرورذہن نشین رکھنی چاہیے کہ تحریک انصاف میں ’’نو وارد‘‘ کو خوش آمدید کہنے والوں کی کمی پائی جاتی ہے۔
ٓٓ۔