جمشید دستی سے دست بدست ہونا مناسب نہیں
ممبر اسمبلی جمشید دستی کے لئے جیل میں لوگ تشدد کا استعمال کر رہے ہیں۔ کسی قیدی کے ساتھ یہ غیر شریفانہ رویہ اختیار کرنے کے لئے شہباز شریف نوٹس لیں۔ ایک ممبر اسمبلی کو گرفتار کرنا مناسب نہیں ہے۔ نوازشریف نے اگلا الیکشن بھی لڑنا ہے۔
محمود صادق نے اس ضمن میں بڑی جرأت اور ذہانت سے بہت اچھی باتیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف نے ابھی سیاست کرنا ہے۔ اس طرح وہ اپنی ساکھ گنوا بیٹھیں گے۔ انہوں نے جمشید دستی سے بھی کہا کہ وہ اب کمزوری نہ دکھائیں اور التجائیہ لہجے میں اپنی بات نہ کریں۔ انہوں نے ڈٹ کر باتیں کی تھیں تو اب ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ لیڈر جیل میں ہی بنتے ہیں۔ جیل میں سختیاں نہ ہوں تو وہ جیل ہی نہیں ہے۔ جمشید دستی اب بہت بڑا لیڈر بن کے نکلے گا۔
بلوچستان میں ایک ممبر اسمبلی مجید اچکزئی کے لئے غیر ضروری پروٹوکول فراہم کیا جا رہا ہے۔ مجید اچکزئی محمود اچکزئی کا کزن ہے اور وزیراعلیٰ بلوچستان کا بھی عزیز ہے۔ اس کے مقابلے میں جمشید دستی کے ساتھ مسلسل بدسلوکی مناسب نہیں ہے۔ میری تو کبھی ملاقات بھی دستی صاحب سے نہیں ہوئی مگر میں اس کی مسلسل حمایت کا اعلان کرتا ہوں۔ اسے سرگودھا جیل میں بھی منتقل نہیں کرنا چاہئے تھا۔
رانا ثنا اللہ نے اس حوالے سے انکوائری کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے مگر اس کی نگرانی کوئی غیر جانبدار آدمی کرے کیونکہ ایسی باتیں سچ سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔ عمران خان نے بھی جمشید دستی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسے ضمیر کا قیدی کہا جا رہا ہے۔
جمشید دستی نے کہا کہ نوازشریف بھی جیل میں کچھ دن رہے تھے وہاں انہیں تشدد کا نشانہ نہ بنایا گیا تھا مگر انہیں مصیبت پڑ گئی تھی۔ پھر وہ صدر رفیق تارڑ کے حوالے سے ڈیل کر کے سعودی عرب روانہ ہو گئے۔ کلثوم نواز نے بھی نوازشریف کے لئے جرأت کی اور جلوس نکالے۔ ہم کلثوم نواز کے ساتھ تھے۔ کلثوم نواز نے کہا کہ محمد رفیق تارڑ حکومت جانے کے بعد بھی ایوان صدر میں ہیں تو انہیں کوئی کردار ادا کرنا ہے۔ جاوید ہاشمی کے ساتھ ایک دن سڑک پر کلثوم نواز نے گاڑی کے اندر گزارا۔ آج جاوید ہاشمی کے خاندان والوں کے ساتھ بھی زیادتیاں ہو رہی ہیں۔ کلثوم نواز آج بھی کوئی سیاسی کردار ادا کریں۔ جے آئی ٹی والوں نے مریم نواز کو بلا لیا ہے مگر کلثوم نواز کو نہیں بلایا تو یہ کریڈٹ ہے۔
ایم این اے جمشید دستی پر تشدد کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ محمود صادق نے اس کی مذمت کی اور یہ بھی کہا کہ جمشید دستی دل گرفتہ نہ ہوں اور نہ التجائیہ لہجے میں بات کریں۔ نوازشریف اور شہباز شریف صورتحال کا خود جائزہ لیں اور جمشید دستی کو رہا کریں۔
جمشید دستی کے بقول ان کے کمرے میں بچھو چھوڑے جا رہے ہیں۔ وہ کئی راتوں سے سوئے نہیں۔ سپیکر ایاز صادق اپنے ایک ممبر اسمبلی کے لئے کوئی کردار ادا کریں۔ وہ بہت شائستہ اور دل والے آدمی ہیں۔ جمشید دستی نے پانی چھڑوایا تو یہ ہوتا رہتا ہے۔ لوگ میرے گاؤں میں پانی کے لئے لڑ بھی پڑتے ہیں۔ اسے تو جرم ہی سمجھا نہیں جاتا۔ جمشید دستی نے کیا کیا ہے۔ یہ انتقامی کارروائی ہے۔ جمشید دستی چونکہ بے باکی سے بولتا رہتا ہے۔ اس لئے اسے سبق سکھانے کے لئے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے۔
پیپلز پارٹی سے تحریک انصاف میں جانے والے بہادر اور دانشور سیاستدان ڈاکٹر بابر اعوان نے بھی جمشید دستی کی حمایت کی ہے اور اس کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ عمران خان نے بھی کیا ہے۔ یہ دونوں حزب اختلاف کے لیڈر ہیں۔
نوازشریف کے ساتھ جو کچھ عمران کرتے رہتے ہیں۔ ان کی طرف میلی آنکھ سے کوئی نہیں دیکھتا۔ نوازشریف اتنے شریف آدمی ہیں کہ انہوں نے کبھی عمران خان کی گالی کا جواب بھی نہیں دیا۔ تو یہ بتائیں کہ جمشید دستی نے کیا کیا ہے؟ اس نے اتنا تو کچھ بھی نہیں کیا جو عمران خان نے کیا ہے اور مسلسل کر رہے ہیں۔ کرپشن کے حوالے سے اس کی آواز نوازشریف کے آس پاس گونجتی رہتی ہے۔
جمشید دستی نے کیا کیا ہے۔ اس نے اتنا نہیں کہا جتنا عمران خان کہتے رہتے ہیں۔ جمشید دستی ایک غریب آدمی ہے۔ اس کا ایم این اے ہونا ایک بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ وہ ایک سچا آدمی بھی ہے اور سچائی کسی کے پاس ہو تو نیکنامی اس کے قدم چومتی ہے۔ جمشید دستی ہمت کرو اور جھوٹ کا مقابلہ کرو۔ جیت تمہاری ہو گی۔ بابر اعوان نے تمہاری حمایت کی ہے تو اب لوگ نکلیں گے۔
مجھے نوازشریف سے بھی ایک بات کرنا ہے۔ آپ نے کہا تھا کہ میں اقتدار کی سیاست نہیں کروں گا۔ اقدار کی سیاست کروں گا تو یہ کیا ہو رہا ہے۔ کیا اقتدار اور اقدار کے معانی بدل گئے ہیں۔ مجھے محمود صادق کی ایک اور بات یاد آ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھٹو کے لئے کسی کی جرأت نہ تھی کہ کوئی ان کی طرف غلط آنکھوں سے دیکھتا۔ مجھے اتفاق ہے محمود صاحب سے کسی حکمران کے سارے خاندان کو بار بار اپنے سامنے پیش ہونے کے لئے احکامات جاری کرنا لمحۂ فکریہ ہے۔ نوازشریف اور شہباز شریف کو بھی پیش ہونا پڑا ہے۔ اب مریم نواز کو بھی بلایا گیا ہے۔ اس طرح پورے خاندان کو خوار کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں جمشید دستی سے بدلہ لینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جمشید دستی سے لڑائی کا یہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ نوازشریف ابھی جے آئی ٹی کے سامنے ملزم کی حیثیت میں پیش ہوئے ہیں۔ جے آئی ٹی پوری طرح عدالت بھی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی پیشی کا امکان ہے؟ جمشید دستی نے نوازشریف کو بہت کچھ یاد دلانے کی کوشش کی ہے۔ نوازشریف جیسے آدمی کے لئے جمشید دستی سے دست بدست ہونا ان کے شایان شان نہیں۔