• news
  • image

نیا سعودی عرب بننے جارہا ہے!

سعودی بادشاہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے بھتیجے شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد کے منصب سے ہٹاکراپنے بیٹے محمد بن سلمان کواگلابادشاہ مقررکردیا ہے۔ تبدیلی نے دنیا والوں کو حیران کردیا ہے۔ اپنے فرزند کو اپنا جانشین اس وقت مقررکیا ہے جب سعودی عرب کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ شاہی خاندانوں کے سارے لوگ اس اچانک تبدیلی سے خوش نہیں ہیں۔ 57سالہ محمد بن نائف اور 31سالہ محمد بن سلمان میں علم عمر اور تجربے کا فرق بڑا واضح ہے ہرخاندان میں خواہ وہ عام ہو یا شاہی ‘اختلاف رائے ہرجگہ پایا جاتا ہے ۔تاہم ایک بات واضح دکھائی دے رہی ہے کہ سعودی نوجوانون نسل محمد بن سلمان کی بطور ولی عہد تقرری کو سعودی عرب کا جدت پسندی کی جانب ایک بڑا قدم قرار دے رہی ہے ۔ انہیں یقین ہے کہ محمد بن سلمان کے بااختیاربننے سے سعودی معاشرہ میں روشن خیالی کا سورج طلوع ہوگا نوجوانوں پر بہت سی معاشرتی پابندیوں کا خاتمہ ہوگا شاید عورتوں کو ڈرائیونگ کی اجازت بھی مل جائیگی۔ محمد بن سلمان نے اپنے زیراثرشعبوں میں پہلے ہی اصلاحات متعارف کرائی ہیں۔ وہ تیل کی عالمی منڈی پر خود نظررکھتے ہیں انہیں ایک جرأت مند مصلح سمجھا جاتا ہے۔ ان کے سامنے 2030ء تک کا ویژن ہے جب سعودی عرب صنعتی اور تجارتی ترقی کے عروج پرہوگا۔ اس وقت توانہیں ملک میں بے روزگاری گرتی ہوئی معیشت اور لاء اینڈ آرڈر جیسے بحران کا سامنا ہے داخلی ایشوز کے ساتھ انہیں خطے کے دوسرے عرب ملکوں سے تعلقات میں پہلی سی گرم جوشی نہ ہونے بلکہ تنازعات کا بھی حل تلاش کرنا ہے ۔ غریب ترین عرب ملک یمن سے سعودی عرب کی پنجہ آزمائی غیردانشمندانہ قدم تھا حوثی باغیوں کو کچلنا ایک طرف لیکن اس کی آڑ میں عالمی انسانی حقوق کی پامالی بہت افسوس ناک ہے۔ سعودی خارجہ پالیسی میں شدت پسندی کا عنصرداخل کرنے کا سہرا محمد بن سلمان کے سرہے جنہوں نے ایران کیخلاف جوشیلے بیانات دئیے اور اماراتی پرنس کیساتھ مل کر قطرکو دہشت گرد ریاست قراردلوانے کیلئے لابنگ کی۔ ایران نے انکی ولی عہد تقرری کو ’’سافٹ کو‘‘قرار دیا ہے۔ روس ‘چین اور امریکہ کو یہ ’’نرم بغاوت‘‘ پسند آئی ہے۔ محمد بن سلمان امریکی صدر ٹرمپ کے داماد کے بھی دوست بتائے جاتے ہیں وہ سعودی امریکہ دوستی کیلئے اس پتے کو بھی استعمال میں لائیں گے۔ خودسعودی عوام اور دنیائے اسلام کو محمد بن سلمان کی ہارڈ لائن خارجہ پالیسی سے ڈر لگ رہا ہے دوسال پہلے انکے والدگرامی نے انہیں نائب ولی عہد مقرر کیا تھا اور اب وہ پورے ولی عہد بنادئیے گئے ہیں۔ 70فیصد سعودی عوام کی عمر 30سال سے کم ہے یوں 31سالہ ولی عہد 70فیصد سعودیوں کے تو بادشاہ بن چکے ہیں وہ نہایت متحرک اور جدید ماڈرن دنیا کے پہلو بہ پہلو لیکرچلنا چاہتے ہیں وہ مملکت کا تیل اور’’ آرامکو‘‘ پرانحصار کم کرکے بیرونی سرمایہ کاری کا راستہ کھولنا چاہتے ہیں ۔ولی عہد کی خواہش کہ لوگوں کی ذاتی زندگی بالخصوص شاپنگ مالز اورپبلک مقامات پر پولیس کی مداخلت کم سے کم ہو۔ لوگ دوسرے ملکوں کی طرح آزادی سے گھومیں پھریں اورتفریح کریں۔ محمد بن سلمان عورتوں کی زندگی سے جبرکو مٹانے کا عزم رکھتے ہیں۔ ولی عہد کے نزدیک ایران انتہا پسندی پر مبنی آئیڈیالوجی والا ملک ہے حالانکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ امام خمینی کے اسلامی انقلاب سے قبل ایران جدت پسندی میں امریکہ اور برطانیہ کے ہم پلہ ملک تھا۔ قطرکے ایران سے محدود تعلقات اور انتہا پسند گروپوں سے صرفِ نظرنے سعودی عرب کا پارہ ہائی کیا اور تعلقات کی ڈور ایک دم سے کٹ گئی۔ قطراور یمن کے بارے میں فیصلے انتہائی عجلت میں کئے گئے آئندہ ولی عہد کو عجلت پسندی سے گریزکرنا اور اپنے والد گرامی جیسے تجربہ کار اور بالغ نظرلوگوں سے رہنمائی لیکر قدم اٹھانا ہونگے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد عرب حکمرانوں میں سے سب سے پہلے محمد بن سلمان تھے۔ جنہیں وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے شرف ہم کلامی نصیب ہوا ولی عہد کی تقرری کے فوراً بعد ٹرمپ نے محمد بن سلمان کو مبارک باد پیش کی۔ ریاض میں امریکہ عرب کانفرنس کے فوراً بعد سعودی تاج وتخت میں تبدیلی ٹرمپ کی آشیرباد کے بغیرممکن نہیں تھی ۔ مارچ میں اوول آفس میں ہونے والی ٹرمپ محمد بن سلمان لنچ میٹنگ میں ٹرمپ نے شہزادے کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا انہوں نے کہا تھا کہ سعودی عرب کو آپ جیسی نوجوان قیادت کی ضرورت ہے جو سعودی عرب کو جی 20ممالک کی صف میں لاکھڑا کرے۔ تیل کی کمائی پر انحصار کرنے سے سعودی عرب اعلیٰ ترقی یافتہ ملک نہیں بن سکتا۔ سیاسی ماہرین کے خیال میں محمد بن سلمان ٹرمپ کی چوائس ہیں اس لئے وہ اسرائیل سے بھی نارمل تعلقات رکھنے میں کوئی عارمحسوس نہیں کرینگے شاید اسی طرح فلسطینیوں کیلئے آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ پرنس کی خواہش ہوگی کہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین ہرطرح کے ڈائیلاگ میں سعودی مشاورت اور شرکت کو لازمی قرار دیا جائے۔ امریکہ ٹرمپ کی قیادت میں اس بات پر منحصر ہے کہ سعودی سوسائٹی میں شدت پسندی اور قدامت پسندی کے بیج جڑسے اکھاڑپھینکے جائیں شہری آزادیوں انسانی حقوق کے نظریے سعودی سوسائٹی میں بھی پروان چڑھیں۔ 1964میں سعود کی جگہ لینے والے فیصل اس وقت سب سے کم بادشاہ تھے اور اب تو سعودی عرب کی تاریخ میں سب سے کم پرنس کے ہاتھوں میں امورمملکت آگئے ہیں۔اتنا بااختیارولی عہد اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا۔ رائل فیملی کے گرد اتنا بڑا حفاظتی حصار ہے کہ بیج بیج چڑیا بھی پر نہیں مارسکتی وہاں کی خبریں ڈان اور پانامہ لیکس کی طرح کبھی لیک نہیں ہوئیں۔ برطرف کئے گئے ولی عہد محمد بن نائف نے القاعدہ کے خلاف بڑے آپریشن شروع کررکھے تھے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے مابین 3.5 ارب ڈالرکے معاہدے ایران کیلئے دردسربنے ہوئے ہیں ڈیڑھ ارب ڈالرکے امریکی ہتھیار سعودی عرب کو ملنے والے ہیں اس بڑی ڈیل کا مقصد ایران کا خلیج میں راستہ روکنا ہے۔ایک زمانہ تھا کہ جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی امریکہ اور سعودی عرب کی اتحادی تھیں یہ 1980 اور 1990کی دہائیاں تھیں جب امریکہ افغانستان سے روس کو دھکیلنا چاہتا تھا۔ 2001ء سے ان پارٹیوں کا موقف بدل چکا ہے۔ شیعہ سنی دونوں مذہبی گروپ امریکہ کو مسلمان مخالف سمجھتے ہیں نیٹوافواج امریکہ کی قیادت میں طالبان القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو نشانہ بناچکی ہیں۔ یہی مذہبی جماعتیں اسامہ کو ہیروسمجھتی تھیں۔ سعودی عرب کی خارجہ پالیسی امریکہ سے جڑی ہے وہ جسے دہشت گرد سمجھے اسے دہشت گرد سمجھنا ا ورجسے امریکہ نواز سمجھے اسے امریکہ نواز سمجھنا۔ یہی ٹرمپ محمد بن سلمان کو اپنی آ نکھ کا تارا سمجھتا ہے اب نئے دور میں سعودی خواتین بغیرمحرم کے آزادی سے ائرٹریول بھی کرسکیں گی۔ دوسال پہلے امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایرانیوں سے ایٹمی پروگرام کے بارے میں معاہدے کررہا تھا ان معاہدوں سے اسرائیل اور سعودی عرب جزبزہوئے تھے امریکہ شیل آئل کی دریافت کے بعد اب تیل کیلئے مڈل ایسٹ کا محتاج نہیں رہا۔ امریکہ سے سعودی ڈیل کے بعد ایران امریکی معاہدے بے اثر دکھائی دے رہے ہیں ۔ تہران ماسکو اور دمشق کے یکجا ہونے کے باوجود شام اپنے ہرشہرپر سے کنٹرول کھوچکا ہے مغربی مبصرین کے نزدیک محمد بن سلمان عرب دنیا کو غیرمستحکم کرکے سیاسی بازی ہارسکتے ہیں ان کا ہدف بشارالاسد کا تختہ الٹنا اور حزب اللہ کو کرش کرنا ہے ایران توپہلے سے بھی زیادہ طاقتوردکھائی دے رہا ہے 50 فیصد سعودی 18سال سے کم عمرکے نوجوان ہیں وہ نوجوان بادشاہ کو اپنے مقدر کا ستارہ تصورکرتے ہیں انہیں محمد بن سلمان کی بادشاہت میں سعودی عرب ایک نیا سعودی عرب بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن