ڈر لگدا اے شاکر بارشاں توں
اچانک ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ”کنٹریکٹر“ پاکستانی مارکیٹوں میں اور آن لائن منظرِ عام پر آئی یقیناً اس کتاب کے لکھنے کے پیچھے جو مقاصد اور محرکات ہیں وہ جلد ہی منظرِ عام پر آئیں گے مگر قارئین نوائے وقت کے لیے یہ اطلاع ہے کہ 2016 ءمیں انڈین خفیہ ایجنسی ”را“ کے سیکرٹری جگ ناتھن کمار نے ریمنڈ ڈیوس سے مل کر ایک پلان تیار کیا جس کے مطابق ریمنڈ ڈیوس کی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب لکھنا طے پایا اور اس سلسلے میں ایک غیر معروف امریکن رائٹر نکولس باسلے سے رابطہ کیا گیا۔ یاد رہے نکولس باسلے وہ شخص ہے جس کے ٹیری جونس کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں(یاد رہے ٹیری جونس وہ کمبخت ہے جس نے قرآنِ پاک کو امریکہ میں جلانے کی جسارت کی تھی) اور یہ کتاب لکھوائے جانے کا مقصد ایک تو بھارتی امریکی گٹھ جوڑ کو تقویت دینا تھا جبکہ دوسرا پہلو ہماری آئی ایس آئی کو عالمی سطح پر بدنام کرنا مقصود تھا۔ ماضی قریب کی بات ہے اور یہ واقعہ ابھی لوگوں کے ذہنوں سے غائب نہیں ہوا کہ مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی جبکہ پنجاب میں شہباز شریف وزیراعلیٰ تھے جو ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے سلسلے میں ہر خاص بلکہ عدالت میں امریکن سفیر کے ساتھ موجود پائے گئے۔ آئی ایس آئی ایک مضبوط اور ناقابلِ شکست ادارہ ہے مگر وہ پاکستانی مروجہ قانون کے تحت ریاست کو نظرانداز یا بائی پاس نہیں کر سکتا۔ اس طرح یہ کہنا کہ آئی ایس آئی کے چیف ریٹائرڈ جنرل پاشا نے صوبائی یا مرکزی حکومت کو بائی پاس کیا ہوگا فہم سے بالاتر ہے۔ جس کسی نے بھی یہ نئی نویلی سازش تیار کی ہے جلد یا بدیر وہ بے نقاب ہوگا اور یقینا اس سازش کے پیچھے بھی پاکستان کے ایک میڈیا گروپ کا ہاتھ نظر آتا ہے جسے موجودہ حکومت کے ساتھ اپنی کشتی بھی ڈوبتی نظر آ رہی ہے۔
قارئین! عید الفطر کے موقع پر احمد پور شرقیہ کے قریب تیل سے بھرا ٹینکر الٹنے سے اب تک کی اطلاع کے مطابق دو سو سے زائد زندہ انسان لقمہ¿ اجل بن چکے ہیں اور جاں بحق ہونے والے یہ تمام افراد شدتِ آگ سے کوئلہ بن چکے تھے۔ اس سانحہ سے نہ صرف بیس کروڑ عوام کی عید کی خوشیاں متاثر ہوئیں بلکہ پاکستانی قومی ٹیم جو تازہ تازہ چیمپیئن ٹرافی جیت کر لائی تھی وہ بھی ماند پڑ گئی۔ اس سانحہ کی کئی وجوہات منظرِ عام پر آئیں اور ابھی مزید نقاب کشائی ہونا باقی ہے۔ جھورا جہاز کہہ رہا تھا کہ آج سے چند سال پہلے اسی علاقے کے لوگوں نے غلام عباس نامی ایک مجذوب شخص کو مقدس کتاب کی توہین کے الزام میں پولیس کی حراست سے چھڑوا کر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی تھی جس سے چند ہی منٹوں میں وہ انسان سے کوئلے میں تبدیل ہو گیااور موجودہ سانحہ کا ٹھیک اسی مقام پر وقوع پذیر ہونا بہت سے سوالات پیدا کرتا ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف جو سانحہ کے وقت سعودی عرب سے لندن اپنے بیٹے اور نواسے کے پاس عید کرنے چلے گئے تھے۔ نمازِ عید لندن میں ادا کرکے بحالتِ مجبوری بہاولپور پہنچے اور پھر دونوں بھائیوں میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف نے لوگوں میں چیک بانٹنے کی تقریب کے دوران ایک دوسرے کی تعریفیں کرکے جگ ہنسائی کا موجب بنے۔اس سے مجھے برسوں پہلے مشہور لوک فنکار عنایت حسین بھٹی(مرحوم) کے چھوٹے بھائی کیفی (مرحوم) کا ایک میگزین کو دیا جانے والا انٹرویو یاد آیا جس میں میگزین رپورٹر نے کیفی(مرحوم) سے یہ سوالات پوچھے کہ آپ کی نظر میں پاکستان کا سب سے اچھا گلوکار کون ہے جواب تھا ”پاجی“ رپورٹر نے پوچھا پاکستان کا سب سے اعلیٰ اداکار کون ہے اور پاکستان کا سب سے اچھا موسیقار کون ہے تو کیفی(مرحوم) کا ایک ہی جواب تھا کہ ”پاجی“۔
قارئین! سانحہ احمد پور شرقیہ سے دو دن پہلے پاکستانی علاقے پاراچنار میں یکے بعد دیگرے دو خوفناک خودکش بم دھماکے ہوئے جن میں غیر سرکاری اطلاع کے مطابق سو سے زائد پاکستانی شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی مگر حکمرانوں کی بے حسی دیکھئے کہ ان کی زخم پوشی کے لیے تادمِ تحریر کسی حکمران کو ان کے پاس جانے کی توفیق نہ ہوئی۔ جھورا جہاز کہہ رہا تھا کہ وڑائچ صاحب چوری کا پٹرول لوٹتے ہوئے جاں بحق ہونے والوں کو بیس لاکھ فی کس اور زخمیوں کو دس لاکھ فی کس امداد کا اعلان کیا گیا جبکہ کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی مقتولین اور پاراچنارکے شہداءکے معاملے میں حکومت کا تجاہل سمجھ سے بالاتر ہے۔ یعنی یہ کیسا ملک ہے جس میں گوالمنڈی کا مقتول حکومت سے ایک کروڑ روپیہ وصول پائے ،کراچی کا مقتول پچاس لاکھ، اسلام آباد کا تیس لاکھ، خیبرپختونخواہ کا بیس لاکھ جبکہ کوئٹہ اور فاٹا کے مقتولین چند ہزار میں ٹرخا دیئے جائیں۔ایک ہی ملک کی انسانی منڈیوں میں انسانیت کے نرخ ایک جیسے مقرر نہ ہوں تو یقینا وہاں یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہوں اور بقول پنجابی سرائیکی شاعر شاکر شجاع آبادی :
”ڈر لگدا اے شاکر بارشاں توں
اساں عارضی نقش دیواراں دے“
قارئین! ملک میں سماجی تفریق تو موجود ہے لسانیت کی بنیاد پر بھی لکیریں کھینچ دی گئی ہیں اب قوم کو مسلک اور فرقہ واریت کے نام پر تقسیم کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔ میرا تعلق ڈسکہ کے ایک نواحی قصبہ مترانوالی کے ایک کسان مذہبی گھرانے سے ہے۔ ہمارے محلے میں ایک اکلوتی مسجد تھی جس میں سنی، وہابی، شیعہ، دیوبندی سبھی ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے تھے او رمحلے کے سبھی بچے اسی صوفی اللہ دِتہ(مرحوم) سے جوکہ نومسلم تھے اور قیام پاکستان کے وقت یہیں کے ہو کر رہ گئے ،سے قرآن کی تعلیم لیتے تھے۔ زمانہ ¿طالب علمی میں اپنی سٹوڈنٹ سیاست کا آغاز امامیہ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے کیا پھر میں اسلامی جمعیت طلبہ کا بھی ناظم رہا اور اسی کے پلیٹ فارم سے کالج یونین کا صدر بنا اور بعدازاں پی ایس ایف میں شمولیت اختیار کی اور پھر شہید بی بی نے مجھے فیڈرل کونسل کا رکن بنا دیا۔ بعدازاں میں نے ڈسٹرکٹ ناظم سیالکوٹ کا الیکشن لڑا اور میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون اور جماعتِ اسلامی کا ضلع ناظم کے لیے مشترکہ امیدوار تھا اور یہ سب تاریخ دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنے قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ آج بھی ضلع سیالکوٹ کے سبھی لوگ یعنی میرے علاقے کے عوام کو یہ نہیں پتہ کہ شیعہ ، وہابی، سنی یا دیوبندی میں سے کیاہوں۔ قارئین! پاکستان کی حالت اس وقت انتہائی تشویشناک ہے ملک کا کوئی وزیرِ خارجہ اورمستقل وزیردفاع نہیں ہے جبکہ وزیراعظم محترم ڈان لیکس، پانامہ لیکس اور حدیبیہ شوگر ملز جیسے مالیاتی سیکنڈلز میں پھنسے ہوئے ہیں اور موصوف نے اب تک چوراسی غیر ملکی دورے کیے ہیں ۔ وزیراعظم ہاﺅس سے پارلیمنٹ چند قدموں کے فاصلے پر ہے وہاں وزیراعظم چار سالوں میں صرف چار بار تشریف فرما ہوئے۔ پاکستانی حکمران خانوادہ اور بے حس عوام ابھی تک یہ سمجھ ہی نہیں پائے کہ اس مریضِ جاں بلب کا اصل مرض کیا ہے اور جس طرح پاکستان کی بہادر عدلیہ اور معزز جج حضرات اور پاک فوج نے یہ بیڑہ اٹھایا ہے کہ ملک میں سب سے پہلے کرپشن کے ناسور کا خاتمہ ہونا ضروری ہے پھر نئی ووٹر لسٹیں اور حلقہ بندیاں اور پھر عام انتخابات اس مشن میں ہم عدلیہ اور پاک فوج کے ساتھ ہیں۔