• news
  • image

سعودی ، اماراتی ، بحرینی و مصری موقف

جناب محمد بن سلمان کے نائب ولی عہد منصب سے ولی عہد منصب تک تعیناتی کوئی ”نیا سعودیہ“ رویہ نہیں ہے۔ کیا شاہ سلمان نے ولی عہد مقرن بن عبدالعزیز کو منصب سے فارغ کر کے اپنے بھتیجے محمد بن نایف شاہ سلمان کو ولی عہد نہیں بنایا تھا۔ اس اصول کے مطابق جناب محمد بن نایف فارغ اور ان کی جگہ محمد بن سلمان ولی عہد مقرر ہوئے جب مقرن بن عبدالعزیز کو فارغ کیا گیا تو اکثر سعودی داخلی کشمکش کے وجود پر اصرار کیا گیا تھا یہ بھی کہ وہ نظر بند ہیں۔ ہم نے اس ”عمل“ سے انکار کیا تھا۔ محمد بن نایف شاہ سلمان کے بھتیجے ہی نہیں داماد بھی ہیں۔ کیا داماد کو وہ نظر بند کریں گے؟ ایک جھوٹ یہ تراشا گیا کہ اسرائیل ایئر پورٹ پر سعودی طیارہ لینڈ کئے ہوئے ہے جو سعودیہ کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا پہلا قدم ہے۔ اس جھوٹ کی تردید خود سعودیہ نے کرنا ضروری سمجھا۔ ایک بات غور سے دیکھیں شاہ عبداللہ بیمار تھے ان کی وفات کی جھوٹی خبر کئی بار ایرانی شہہ دماغوں نے پھیلائی۔ دوسری طرف سعودیہ کا طرز عمل دیکھیں کہ ایرانی روحانی ولایت فقیہہ علی خامینائی کب سے شدید بیمار ہیں مگر کسی خلیجی یا سعودی ذہن نے انکی موت کی خبر پھیلانے کی حرکت نہیں کی کیا۔کتنے ہی ہمارے شہہ دماغ مسلسل لکھ رہے ہیں کہ سعودی شیعہ دشمن ہے اور اسلامی عسکری اتحاد شیعہ مخالفت اور ایران دشمن کا نام ہے ہم متعدد بار لکھ چکے ہیں کہ شاہ عبداللہ نے صدر ہاشمی، صدر خاتمی، صدر احمدی نژاد کو ریاض مدعو کر کے عزت و احترام پیش کیا مگر جواب میں شاہ عبداللہ کی زندگی کے بیماری تک کبھی شاہ عبداللہ یا انکے ولی عہد کو تہران مدعو کیا گیا؟ شاہ عبداللہ نے حریری کے قتل سے کافی پہلے بشار الاسد کو بھی ریاض مدعو کیا اور شفقت دی تھی۔ مگر جواب میں اسی بشار الاسد نے سعودی شاہی خاندان کے ذاتی دوست حریری کو قتل کروا دیا۔ کیا یمن کے زیدی بادشاہ اور ایران کے رضا شاہ پہلوی سے سعودی بادشاہت کی دوستی نہ تھی؟ مجھے بتایا جائے جب بھٹو نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس بلائی تو کیا شاہ ایران اس میں شریک ہوا؟ جی نہیں مگر شاہ فیصل اور قذافی ، بھٹو کے سیاسی و معاشی دست و بازو بن گئے تھے۔ ہمیں سعودی نفرت اور ایرانی محبت میں زمینی حقائق کا ادراک کئے بغیر سعودیہ کے قدیم ترین قبائلی رسم و رواج کو سعودیہ حکومت کی بد اعمالی نہیں بنانا چاہئے۔ سعودیہ کے جغرافیئے کو توڑ ڈالنے کی پہلی کوشش برطانیہ نے کی تھی نجد کے ایک جنگجو فیصل الداعش قبائلی سردار کو شاہ عبدالعزیز سے منحرف کروایا۔ اس کو تجارت کے روپ میں اسلحہ و دولت دی تا کہ نجد علاقہ کو حجاز سے الگ کر کے الگ ریاست بنوا کر شاہ عبدالعزیز کو سزا دی جائے کہ اس نے جدہ پر برطانوی بحری اڈا کے قیام کی اجازت کیوں نہ دی تھی۔ تفصیل محمد اسد کی کتاب ”روڈ ٹو مکہ“ میں پڑھیے مگر شاہ عبدالعزیز نے آخری عمر ہونے کے باوجود بھی برطانوی سازش کو کچل دیا تھا۔ یہی کچھ جنرل جمال ناصر کے منصوبے کے ساتھ شاہ فیصل نے کیا۔ یہی کچھ قذافی کے منصوبے کے ساتھ شاہ عبداللہ نے کیا۔ جبکہ قطری طرز عمل ہمیشہ سعودیہ اور آل سعودی دشمن رہا ہے۔سعودیہ نے ایران کو الگ کر کے قطر کا دشمن رویہ درست کرنے کا راستہ دلیری سے اپنا لیا ہے کیا امارات اور سعودیہ کا مو¿قف اور راستہ عدل و انصاف کی عینک سے دیکھا جا سکتا ہے؟ ہمارے ہاں مسلسل شور ہے کہ خلیجی و سعودی حکمران قطر سے ظلم کر رہے ہیں۔ کچھ تو انصاف بھی کرنا سیکھیں۔ ہم قطر کے جائزہ معاصرے کی سعودی، اماراتی، بحرینی، مصری کوشش کی حمایت کرتے ہیں۔ قطر کو صرف ایرانی آلہ کار بننے سے سخت پرہیز کرنا ہو گا۔ یہ بھی تو دیکھیں ایک طرف طویل ترین سعودی دشمن قطر، دوسری طرف خلیجی تعاون کا ممبر ہو کر ”جاسوس اور دشمن“ کا کردار۔ ”مختصر“ سے قطر کا صرف گیس و تیل سے سے میسر وافر دولت کا منفی کردار کب تک اماراتی، سعودی، بحرینی تحمل سے برداشت کرتے رہتے؟ حال ہی میں ہماری ایک نشست جناب عیسیٰ عبداللہ پاشا سفیر امارات، جناب مردان رضوان میر داد، قائمقام سعودی سفیر، مصری ناظم الامور خاتون سفارت کار، اور بحرین سفارت خانے کے حمد بن احمد الہاشل سے ہوئی اور انکے مو¿قف کو سمجھنے کی سہولت میسر آئی۔ ان سب نے بتایا کہ قطر پر ”حملے“ کا تصور تک موجود نہیں۔ صرف محاصرہ ہے اور ایسا کرنا ان کے ممالک کا سیاسی و اخلاقی جواز مضبوط دلائل و اسباب و علل رکھتا ہے۔ قطر کیوں دشمن رویہ ترک نہیں کرتا؟ قطر کا دلچسپ رویہ دیکھیں۔ ایک طرف جی سی سی کارکن، دوسری طرف ایران سے سمندری گیس میں کاروباری اشتراک سے ایرانی مو¿قف کی حمایت۔ اسی ایران کے ذریعے بشار الاسد سے ذاتی رابطہ اور حمایت کی یقین دہانی بھی تا کہ وہ قطری گیس پائپ لائن کو شام سے یورپ تک جانے کا راستہ فراہم کر دے۔ اس کے ساتھ مل کر یمن میں اتحادی فوج کا حصہ بھی اور شام میں داعش مخالف سعودی و اماراتی عمل کی حمایت بھی۔ کیسا شطرنج کھیل رہا ہے۔ ہاں ہمارے ہاں خلیجی و سعودی مزاج اور افتاد طبع کا حقیقی فہم موجود نہیں اسی لئے انکے حوالے سے اکثر غلط باتیں لکھی جاتی ہیں۔ عرب مزاجاً سادہ لوح ہوتے ہیں سازشی نہیں۔ وہ دوستی میں نہایت وافر محبت و خدمت پیش کرتے ہیں۔ جواب میں مصیبت کے وقت ایسی ہی محبت اور وفاءکی توقع کرتے ہیں۔ خلیجی و بحرینی و سعودی بادشاہ دنیا کے جمہوری منتخب صدور اور وزرائے اعظم سے کہیں زیادہ عوامی رابطہ رکھتا ہے۔ ایک دن ہفتہ میں مقرر ہوتاجب کمزور سے کمزور آدمی بھی بادشاہ کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کر سکتا ہے۔ یہ عوامی شاہی عدالت اکثر سائلین کے جائز مطالبات فوراً پورا کرنے کو یقینی بناتی ہے۔ اگر جنرل ضیاءالحق کچھ کفار اغیار اور اپنوں کی سازشوں سے شہید نہ ہوتے تو مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج ہرگز ہرگز نہ آتی بلکہ سعودی و خلیجی عسکری ضرورت کو فوراً جنرل ضیاءالحق پورا کر دیتے۔ یوں اسامہ بن لادن بھی امریکی فوج کے مسئلے پر شاہ فہد کا دشمن نہ بنتا۔ افسوس جنرل ضیاءشہید ہوئے تو ہمارے ایک فاضل دانشور جنرل اسلم بیگ ہمارے آرمی چیف بن گئے۔ یوں وہ ”خلا“ جو پاکستانی فوج نے ”پُر“ کرنا تھا وہ امریکہ نے فوراً سعودیہ کی اجازت لئے بغیر ہی پر کر کے مشرق وسطیٰ پر عسکری قبضہ کر لیا۔ اسلامی عسکری اتحاد کی تخلیق کا نظریہ صرف اس قلم کار کا دیا ہوا تصور ہے۔ ”عرب پاک“ محبت کا خالق ثانی بھٹو تھا۔ پہلے خالق سر آغا خاں اور قائداعظم بطور صدور مسلم لیگ تھے۔ جنرل مشرف نے ایران کے طرف سے ہمارے کچھ ایٹمی راز معاملات کے افشاءپر ”رد عمل“ میں شاہ عبداللہ سے مضبوط دوستی قبول کی۔ یہی تجربہ جنرل راحیل شریف کو ایران کے حوالے سے ہوا تو وہ بھی جنرل مشرف کی طرح دو ٹوک سعودیہ کے حامی بن گئے۔ آخر کچھ تو ایرانی خاک میں ایسی چیز موجود ہے کہ اکثر پاکستانی جنرلز ایران سے ضروری واجبی تعلقات مگر پکی دوستی سعودیہ، امارات، بحرین و کویت و اومان سے رکھنے کے ”عادی“ بن جاتے ہیں۔ قطر کا معاملہ قطری شاہی دولت اور قطر گیس و معدنی وسائل کو حل کرنے کی سہولت دیں۔ ہمیں امارات کے سفیر جناب عبداللہ پاشا نعیمی سے کہنا ہے کہ وہ اماراتی فیصلہ ساز اولو الامر کو بتائیں کہ اہل پاکستان تو اکثر امارات کے پر جوش حامی ہیں مگر امارات تاحال کیوں مسلمانوں کے قاتل بھارت کے ساتھ کھڑا ہے؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن