چینی صدر کا احتجاج: ’’ون چائنہ‘‘ پالیسی پر قائم رہیں گے: ٹرمپ
بیجنگ (بی بی سی+ نیٹ نیوز) چین نے امریکی بحری بیڑے کی بحیرہ جنوبی چین میں موجودگی کو سنگین سیاسی اور فوجی اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے اپنے جنگی جہازوں کو متنازعہ جزیرے کی جانب روانہ کر دیا ہے جہاں سے امریکی بحری بیڑہ گزر رہا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے ٹرمپ سے ٹیلیفون پر بات کر کے بحیرہ جنوبی چین میں امریکی بحری بیڑے کی متنازعہ جزیرے کے قریب موجودگی پر احتجاج کیا ہے۔ شی جن پنگ نے ٹرمپ کو بتایا ہے کہ 'منفی محرکات' امریکہ اور چین تعلقات کو متاثر کر رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے دونوں ملکوں کے صدور کی ٹیلیفون پر بات چیت کی تصدیق کی لیکن بحیرہ جنوبی چین میں امریکی بحری بیڑے سے متعلق کسی بات چیت کا ذکر نہیں کیا۔ وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا کہ دونوں صدور نے جزیرہ نما کوریا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کرنے کے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔ چینی وزارت خارجہ نے امریکی جنگی بیڑے یو ایس ایس سٹیٹ ہیم کے جنوبی بحیرہ چین (ساؤتھ چائنا سی) میں متنازعہ جزیرے کے نہایت قریب سے گزرنے پر شدید مذمت کی ہے۔ٹرمپ نے کہا ہے امریکہ ایک چین کی پالیسی پر قائم رہے گا۔ امریکہ اور چین کے تعاون کا وسیع مستقبل ہے۔ امید ہے امریکہ تائیوان امور سے ٹھوس طریقے سے نمٹے گا۔ فریقین نے چین امریکہ تعلقات اور جی ٹونٹی ہمبرگ سمٹ کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ فریقین نے جرمن کے شہر ہمبرگ میں ملاقات پر اتفاق کیا۔ امریکی صدر نے کہا کہ امریکہ اور چین کے تعاون کا وسیع مستقبل ہے۔ فریقین نے جزیرہ نما کوریا کے امن و امان سمیت دیگر مسائل پر بھی بات چیت کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جاپان کی قیادت سے ٹیلیفون پر گفتگو کی ہے۔ وائٹ ہائوس کے مطابق اس دوران رہنمائوں نے شمالی کوریا کے معاملے پر مشترکہ ردعمل ظاہر کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ نے جاپانی وزیراعظم سے گفتگو کے دوران شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام پر توجہ مرکوز رکھی۔ شمالی کوریا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف اپنے میزائل اور جوہری پروگرام جاری رکھے ہوئے ہے۔