پانامہ کیس سیاسی ہوگیا‘ رپورٹ حقائق پر مبنی ہے: آئینی ماہرین کی متضاد آراء
لاہور(وقائع نگار خصوصی) پانامہ لیکس جے آئی ٹی کی رپورٹ پر آئینی ماہرین نے متضاد اور مختلف رائے کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس بات پر ماہریں متفق نظر آئے کہ سپریم کورٹ فریقین کو جرح کا موقع دے سکتی ہے۔بیرسٹر جاوید اقبال جعفری نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں وزیر اعظم سمیت شریف فیملی کے دیگر ممبران کو آمدنی سے زائد اثاثے بنانے،غلط بیانی کرنے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔اب نیب آرڈیننس کی شق9کے تحت ان کے خلاف ریفرنس دائر ہو گا اور اس سے پہلے سپریم کورٹ سے ان کی نا اہلی کا واضح امکان ہے کیونکہ دو جج پہلے ہی ان کو نا اہل قرار دے چکے ہیں۔ عاصمہ جہانگیر ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ نواز شریف کو نکالا گیا تو شوکت عزیز جیسا کوئی وزیر اعظم آئیگا حکومت گارڈ فادر ہوتی تو جے آئی ٹی نہ بنتی۔پاناما کیس قانونی سے زیادہ سیاسی ہوگیا ہے۔شریف خاندان کوسزا دینے سے قبل مجرم ثابت کرنا ہوگا۔ رپورٹ کے بعد ٹرائل ہو گا ، بغیر ٹرائل سزا نہیں ہو سکتی۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ حقائق پر مبنی ہے۔اگر سپریم کورٹ اپنی پوری قوت کے ساتھ جے آئی ٹی کے پیچھے کھڑی نہ ہوتی تو شاید جے آئی ٹی کیلئے تفتیش مکمل کرنا ممکن نہ تھا کیونکہ حکمرانوں نے جے آئی ٹی کو متنازعہ بنانے کیلئے ہر حربہ اختیار کیا۔سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ کے ذریعے عوامی نمائندوں کو نا اہل کرنے کے فیصلے درست نہیں۔ان نظر ثانی کیلئے لارجر بنچ بنانا چاہیے۔اظہر صدیق نے کہا کہ تین رکنی عملدرآمد بنچ وزیر اعظم کو طلب کر کے فیصلہ کر سکتا ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد وزیر اعظم کی نا اہلی یقینی ہے۔موجودہ بنچ میں سے ایک جج نے بھی نا اہلی کا فیصلہ دیا تو وزیر اعظم نا اہل ہو جائیں گے۔جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین نے کہا کہ چیف جسٹس کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ یہ مقدمہ انہی پانچ ججز کے پاس بھیجا جائے جنہوں نے پانامہ کیس کی سماعت کی۔ یہ اعلیٰ عدالتی روائت کا حصہ ہے کہ وہی ججز کیس سنیں گے جو اس سے پہلے سن چکے ہیں۔عاصمہ جہانگیر نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جے آئی ٹی متنازعہ رہی اور متنازعہ ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد ٹرائل ہوگا۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو حتمی قرار دینا جائز نہیں۔ گاڈ فادر اور مافیا کہنا غلط تھا۔ ایس ای سی پی کے چیئرمین کے حوالے سے ٹھیک کیا، انہوں نے کچھ غلط کیا ہوگا۔