• news

جے آئی ٹی کے 59 اجلاس، 23 افراد سے تفتیش، 25 گواہوں کی طلبی، 5 حاضر نہ ہوئے

اسلام آباد (عترت جعفری+ سجاد ترین+ نمائندہ نوائے وقت) جے آئی ٹی کی تفتیش میں 28 گواہان کو طلب کیا گیا۔ تاہم 5 گواہ بار بار کی طلبی کے باوجود پیش نہیں ہوئے۔ ان میں قطرے شہزادہ حمد بن جاسم بن الجبار المثانی ‘ شیخ سعید (امریکی شہری) جس کے حدیبیہ پیپر ملز کیس پر ضرورت تھی۔ اسحاق ڈار کی بیگم کے عزیز موسیٰ غنی، گواہ کاشف مسعود‘ شیزی نقوی شامل ہیں۔ میوچل لیگل امانت کے ضمن 6 ایم اے دے دی گئیں۔ ان کے اٹارنی جنرل برٹش کو تین بار ہوم آفس یو کے سنٹرل اتھارٹی کو سات بار ‘ وزارت داخلہ سعودی عرب کو ایک بار‘ ایم ایل اے کی درخواستیں دیں ان میں یہ صرف اٹارنی جنرل برٹش اور وزارت انصاف یو اے ای نے ان درخواستوں کا جواب دیا جے آئی ٹی کے دو ارکان نے دبئی کادورہ کیا اور اس کا مقصد کیپیٹل ایف ریڈ دی شریف خاندان کے کاروبار کے متعلق معلومات حاصل کرنا تھا۔ یو اے ای کی حکومت نے ایک ایم ایل اے کے جواب میں گلف سٹیل کے 25 فی صد شیئر کی فروخت کی دستاویز کی تصدیق نہیں کی۔ یہ واحد دستاویز ہے جس پر مدعا علیہم نے قطر میں سرمایہ کاری کی ’’منی ٹریل‘‘ کے طورپر انحصار کیا تھا۔ گلف سٹیل فیملی بزنس تھا۔ طارق شفیع اور محمد حسین بے نامی مالکان تھے جبکہ اصل مالک میاں محمد شریف تھے۔ جے آئی ٹی نے لکھا ہے کہ میاں نوازشریف نے بیان میں کہا کہ وہ ایون فیلڈ میں فلیٹ نمبر 16 میں اور لندن کے سورلز عموماً ٹھہرتے ہیں۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ کسی اور نے فلیٹ میں 16 میں قیام کرنے کی بات نہیں کی۔ صرف حسن نوازشریف نے بیان میں کہا ہے کہ جب وہ 90 کی دہائی میں بیمار تھے تو میاں نوازشریف اس فلیٹ میں ٹھہرے تھے۔ جہاں تک قبضہ کا تعلق ہے اس فلیٹ کا کلی طور پر ذاتی استعمال ہوتا رہا حقیقی ’’بینی فیشر‘‘ ظاہر کرتا ہے ۔ سپریم کورٹ میں مسٹر الثانی کی طرف جو دو خطوط پیش کئے گئے وہ حقیقت نہیں بلکہ اضافہ ہیں۔ کیپٹن صفدر نے یہ غلط بیانی کرکے انہیں آج بھی پتہ نہیں کہ ایون فیلڈ کے اپارٹمنٹس کا مالک کون ہے وہ 1953ء سے لندن جارہے ہیں۔ عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی کو 60 روز میں تحقیقات مکمل کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی اور اس نے اپنا کام آٹھ مئی کو شروع کیا تھا۔ تحقیقاتی ٹیم کا کام شروع ہوتے ہی حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کی طرف سے ایک دوسرے کے خلاف پہلے سے جاری الزام تراشیوں میں تیزی آ گئی تھی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم جس کی سربراہی ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کو سونپی گئی۔اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے دو ماہ کے عرصے میں 59 اجلاس منعقد کیئے اور اس دوران اس نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف اور ان کے اہلخانہ سمیت 23 افراد سے تفتیش کی۔ قطر کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزادہ حمد بن جاسم کو دو مرتبہ ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا تاہم انھوں نے پاکستان آ کر یا قطر میں پاکستانی سفارتخانے میں جا کر بیان دینے سے معذرت کی۔تحقیقاتی عمل کے آغاز میں پاکستان مسلم لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے تحقیقات میں تعاون کرنے کے بارے میں بیانات سامنے آتے رہے وہیں اختتامی ہفتوں میں ان بیانات کا لہجہ سخت اور تلخ ہوتا گیا۔ جبکہ پیپلزپارٹی جے آئی ٹی کو حکو متی ملی بھگت قرار دیتی رہی۔

ای پیپر-دی نیشن