• news

اسلام آباد:جے آئی ٹی کی غلط رپورٹنگ‘ ایک اخبار کے ایڈیٹر انچیف‘ پبلشر‘ رپورٹر کو توہین عدالت کا نوٹس

اسلام آباد (سپیشل رپورٹ + نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے بارے میں بعض رپورٹوں کی اشاعت پر ایک اخبار کے ایڈیٹر انچیف‘ پبلشر اور رپورٹر کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے سات روز کے اندر جواب طلب کیا ہے۔ نمائندہ نوائے وقت کے مطابق اٹارنی جنرل کو مزید ہدایت کی جے آئی ٹی قائم ہونے کے بعد مختلف اخبارات کو وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اشتہارات کی تفصیل بھی فراہم کی جائے۔ عدالت نے ایک اخبار میں جے آئی ٹی سے متعلق چھپنے والے مواد کا نوٹس لے لیا اور کہا اس اخبار کی سٹوری براہ راست توہین عدالت کے مترادف ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا جے آئی ٹی پر دبائو ڈالنے کیلئے یہ سب کچھ کیا گیا۔ ہم عدالت کے سامنے غلط بیانی کرنے کے معاملے کا بھی نوٹس لیں گے۔ عدالت نے کہا کہ تصویر لیک پر عدالت نے فیصلہ نہیں دیا مگر رپورٹنگ دیکھیں‘ آرڈر کچھ ہوتا ہے‘ اپ لکھا کچھ اور ہوتا ہے۔ اخبارات کو اشتہارات دیئے جاتے ہیں تاکہ غلط خبریں چھپوائی جا سکیں۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے کہا آپ اتنے اشتہارات نہ دیتے تو معاملات یہاں تک نہ پہنچتے۔ غلط رپورٹنگ کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے۔ این این آئی کے مطابق کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران تین رکنی بنچ نے پانامہ پیپرز کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی سے متعلق خبروں کا نوٹس لیا اور اخبار کا مطالعہ کیا۔ پھر عدالت میں موجود رپورٹر کو طلب کیا۔ بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے رپورٹر سے کہا ذرا دیکھیں اخبار نے کیسی رپورٹنگ کی ہے؟ مسلسل غلط رپورٹنگ کی جا رہی ہے؟ اخبار کے پبلشر اور ایڈیٹر کون ہیں؟ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا ہم نے مسلسل غلط رپورٹنگ کی اشاعت دیکھی ہے۔ انہوں نے اخبار کے ایک رپورٹر کو روسٹرم پر طلب کرکے خبر سے متعلق استسفسار کیا تو رپورٹر نے کہا خبر میں نے شائع نہیں کی‘ وہ دوسرا رپورٹر ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ان سے دو بار رپورٹر نے رابطہ کیا۔ میں نے کہا میں بولوں گا۔ یہ براہ راست توہین عدالت کا معاملہ ہے۔ جسٹس عظمت نے کہا آرڈر کچھ ہوتا ہے اور چھاپتے کچھ ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا سپریم کورٹ نے آئی ایس آئی کو جے آئی ٹی کے معاملات دیکھنے کا حکم کب اور کیسے دیا؟ جسٹس عظمت نے کہا رپورٹر کو جرأت کیسے ہوئی اس نے ایک جج سے رابطہ کیا۔ یہ بھی نوبت آئے گی کہ جج کو صحافی فون کریںگے۔ یہ کھلم کھلا عدالت کی توہین ہے۔ انہوں نے کہا ماضی میں بھی ایک وزیراعظم نے جج سے رابطے کی کوشش کی جس کا نتیجہ سب کو پتہ ہے۔

ای پیپر-دی نیشن