قائمہ کمیٹی: وفاقی تعلیمی اداروں میں قرآن پاک ترجمہ کیساتھ پڑھانے کا بل منظور
اسلام آباد(آئی این پی) سینٹ قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت نے قرآن کریم بل 2017 کی متفقہ طور پر منظوری دے دی۔ وزیر مملکت برائے تعلیم بلیغ الرحمان نے کمیٹی کو آ گاہ کیا قرآن پاک آسان ترجمے کے ساتھ اسلامیات کے پیریڈ میں پڑھایا جایا کرے گا۔ سات برسوں میں طلباء پورے قرآن پاک کو سمجھ لیں گے۔ انہوں نے کہا آئین میں وضاحت سے درج ہے قرآن کریم کی تعلیم ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ہم نے آئینی اور مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے آئینی تقاضا پورا کیا۔ بل کے خدوخال سادہ رکھے گئے ہیں۔ اس بل کا اطلاق اسلام آباد اور وفاق کے زیر انتظام آنے والے سکولوں تک محدود رہے گا۔ اور تمام صوبے بھی اس قانون کو لاگو کرنے پر رضا مند ہیں۔ غیر مسلم ارکان پارلیمنٹ سے بھی مشاورت جاری رہے گی، پی ایچ ڈی کے علاوہ ریسرچ پیپرز تیار کرنے والوں کی پوری مدد کی جارہی ہے۔ نصاب کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کیلئے ماہرین شامل کیے گئے ہیں جبکہ چیئرمین کمیٹی سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ پی ایچ ڈی اور پیپرز ریسرچ کے سماجی اثرات مرتب نہیں ہو رہے اس خلاء کو دیکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ بل کے تحت جماعت اول سے پنجم تک ناظرہ قرآن اور جماعت ششم سے بارہویں تک قرآن کریم آسان ترجمے کے ساتھ پڑھایا جانا لازم ہوگا۔ اس بل کا اطلاق غیر مسلم طلبا و طالبات پر نہیں ہوگا۔ ناظرہ قرآن اور قرآن کریم کی آسان ترجمے کے ساتھ پڑھائی نجی سکولوں میں بھی لازم ہوگی۔ اجلاس میں قومی کمیشن برائے انسانی ترقی کے اساتذہ کے اعزازیہ کا معاملہ زیر بحث آیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کمیونٹی اساتذہ کا اعزازیہ حکومت کی منظور شدہ پالیسی کے تحت 15 ہزار سے کم نہیں ہونا چاہیے۔ انٹر بورڈ کمیٹی آف چیئرمین کے O اور A لیول کے مساوی سریٹفکیٹ کے اجراء کے حوالے سے سینیٹر عائشہ رضافاروق کے ایوان بالا میں توجہ دلاؤ نوٹس کا معاملہ سینیٹ قائمہ کمیٹی بین الصوبائی رابطہ کو بجھوا دیا گیا۔ ایچ ای سی حکام نے بتایا کہ ملک بھر میں 80 یونیورسٹیوں کی تعلیم کا موازنہ کروایا گیا ، جن میں سے یونیورسٹیوں کے 80تعلیمی پروگرام درمیانی درجے کے پائے جانے سے بند کر دیئے گئے۔ پرائیوٹ سیکٹر کی کچھ یونیورسٹیوں کی جعلی ڈگریوں کے اجراء اور غلط طریقے سے الحاق پر طلباء کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے ہدایت دی یہ افسوسناک ہے ان یونیورسٹیوں کے نام اگلے اجلاس میں تحریری طور پر آگاہ بتائے جائیں۔