نواز شریف نیا وزیراعظم لائیں :پیپلزپارٹی:نہیں الیکشن کروائے جائیں :تحریک انصاف:لیگ
اسلام آباد+ (ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ+ سپیشل رپورٹر) اپوزیشن جماعتوں کے درمیان رابطوں کا سلسلہ گزشتہ روز بھی جاری رہا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے شیخ رشید سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا نوازشریف کیلئے بہتر ہے ضد چھوڑ کر فوری مستعفی ہوجائیں۔ جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف نے قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کا استعفیٰ منظور ہے نیا وزیراعظم نہیں۔ ادھر اپوزیشن کی ریکوزیشن پر چیئرمین سینٹ نے ایوان بالا کا اجلاس 17 جولائی کو طلب کرلیاجبکہ اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہنمائوں کا اجلاس آج ہوگا جس میں آئندہ کی حکمت عملی پر غور کیا جائیگا۔ خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کے پاس ایک منٹ کا جواز نہیں کہ وہ اپنی کرسی پر بیٹھیں۔ نوازشریف کو پہلے ہی اخلاقی طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے تھا۔ ہمیشہ وزیراعظم کو کہا کہ آپ کی آستینوں میں سانپ ہیں، ان سے بچیں۔اب وزیراعظم کو شرمندہ ہوکر واپس جانا ہوگا۔ پیپلزپارٹی اپنے اداروں کے پیچھے کھڑی ہے۔میاں صاحب کیا آپ عوام اور عدلیہ سے محاذ آرائی کریں گے؟ ن لیگ نے ماضی میں تمام اداروں سے تصادم کی پالیسی اختیار کی۔ وزیراعظم میں جرأت نہیں کہ سیاسی جماعتوں سے محاذ آرائی کرسکیں۔ہماری خواہش تھی کہ جے آئی ٹی آزادانہ طور پر کام کرے۔ یہ 90ء کی دہائی نہیں، وقت بدل چکا ہے۔ آپ نے پاکستان کے اداروں کو بدنام کیا جس سے ریاست کو نقصان پہنچا۔ حکمرانوں نے ملک کے کسانوں کو تباہ حال کردیا۔حکومت نے کون سی لوڈشیڈنگ ختم کردی پہلے 6 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی تھی اب 9 گھنٹے ہوتی ہے۔ جب حکمران جائیں گے تو لوگوں کو ان کی حقیقت پتہ چلے گی۔ شہباز شریف سے پوچھا جاتا ہے کہ قطری کہاں ہے کہتے ہیں معلوم نہیں۔ نوازشریف کو پارٹی پر اعتماد ہے تو کسی اور کو وزیراعظم بنائیں۔ وزیراعظم کا ورک ویزہ قوم کیلئے شرم کی بات ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں استعفے کے موضوع پر بات کرنا معنی خیز اور شرمناک ہے۔ نوازشریف سے پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں حسن اور حسین نواز سے پوچھیں اب معاملہ آئین کے آرٹیکل 62,63 سے آگے جاچکا ہے۔ ایک انٹرویو میں خورشید شاہ نے کہا نواز شریف کیلئے بہتر ہے مستعفی نہ ہونے کی ضد چھوڑ کر فی الفور استعفیٰ دے کر کسی اور کو موقع دیں بصورت دیگر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پیپلزپارٹی اپنے آئندہ کے لائحہ عمل پر غور کرے گی۔ اسمبلیاں توڑنا کسی کے حق میں نہیں ہے حکومت کو صحیح راستہ اختیار کرنا چاہیے، وزیراعظم کے استعفیٰ کے بعد ن لیگ نے حمزہ شہباز کو آگے لانے کی کوشش کی تو اسے کوئی نہیں مانے گا جس سے ن لیگ کو بہت بڑا نقصان ہوگا۔ پیپلزپارٹی نے چوہدری نثار کو ہٹانے کا مطالبہ کیا نہ اس سلسلے میں وزیراعظم کو کوئی خفیہ پیغام بھیجا۔ شہباز شریف اور مریم نواز کا سیاسی مستقبل ختم ہوچکا۔ چودھری نثار نے سمجھ داری کا مظاہرہ کیا جو اس معاملے پر خاموش رہے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم کو مشورہ دوں گا کہ ٹکرائو کی سیاست سے بچیں۔ ادھر شیخ رشید نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے پاس استعفیٰ کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا اگر وہ استعفیٰ نہیں دیں گے تو جیل جائیں گے اور آج پارلیمانی رہنماؤں کے اجلاس میں نواز شریف سے اس ملک کی مشترکہ حکمت عملی طے ہوگی اور تمام اپوزیشن جماعتیں ملکر نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کریں گی۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے وزیر اعظم نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ایک بار پھر عہدے سے مستعفی اورقبل از وقت نئے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کر دیا ہے۔ بابر اعوان نے نعیم الحق اور دیگر رہنمائوں کے ہمراہ بات سے گفتگو کرتے ہوئے کہا وزیر اعظم جتنا چاہیں روئیں ہم انہیں سیاسی شہید نہیں بننے دیں گے بلکہ ان کو ہٹا کر قوم کو جشن آزادی منانے کا موقع فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہا وکلائ، تاجر تنظیموں سمیت تمام سیاسی جماعتیں وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کررہی ہیں۔ اسحاق ڈار نے شریف خاندان کے منشی کا کردار ادا کیا ہے۔ وزیر اعظم کے نااہل ہونے کی صورت میں ہمیں مسلم لیگ (ن) کا نیا وزیر اعظم نہیں چاہئے بلکہ نئے عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس موقع پر پی ٹی آئی رہنما نعیم الحق نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف سنگین الزامات سامنے آرہے ہیں اور اگر اس صورت میں بھی انہوں نے استعفیٰ نہیں دیا تو وہ سخت وعبرتناک انجام سے دوچار ہوں گے۔ اپوزیشن جماعتوں کے پارلیمانی رہنمائوں کا اجلاس آج ہوگا جس میں حتمی مشاورت کے بعد نوازشریف کیخلاف گھیرا تنگ کرنے اور قومی اسمبلی کے اجلاس کی ریکوزیشن سمیت اہم فیصلے کئے جائینگے۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا (ن) لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوچکی‘ تمام سیاسی جماعتیں متفق ہیں کہ نوازشریف کو اب چلے جانا چاہیے کابینہ ارکان کو جے آئی ٹی رپورٹ کے دفاع میں دقت پیش آرہی ہے، نواز شریف جسے چاہیں وزیراعظم نامزد کرسکتے ہیں۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے اپوزیشن جماعتوں کی ریکوزیشن پر سینٹ کا اجلاس 17 جولائی پیر کو 4 بجے پارلیمنٹ ہائوس میں طلب کر لیا ہے جس میں پانامہ کیس پر جے آئی ٹی کی رپورٹ کا معاملہ زیر بحث آئے گا اور اپوزیشن نے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی حکمت عملی تیار کر لی ہے۔دریں اثناء بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز پیپلز پارٹی آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل فیصل ممتاز راٹھور کے گھر جاکر ان کی والدہ محترمہ بیگم فرحت ممتاز راٹھور کی وفات پر ان سے اظہار تعزیت کیا۔ اس موقع پر بلاول نے پارٹی رہنماوں سے گفتگو میں کہا کہ جے۔آئی۔ٹی کی رپورٹ نے شریف خاندان کا اصلی چہرا بے نقاب کر دیا ۔ نواز شریف فوری عہدہ سے مستعفی ہوں ورنہ ہم ملک گیر احتجاجی تحریک چلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پیپلزپارٹی کا وزیر اعظم ایک اشارہ میں گھر بھیجا جا سکتا ہے تو آمروں کی باقیات کیوں نہیں جن پر کرپشن ثابت ہو چکی ہے۔ دریں اثناء پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کا لاہور میںہنگامی اجلاس ہوا، پانامہ کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف اور شہباز شریف سے استعفے کی قرارداد متفقہ طور پر منظورکرلی گئی جبکہ پنجاب اسمبلی میں ق لیگ اور جماعت اسلامی نے شہباز شریف کی نااہلی کیلئے تحریک انصاف کے ریفرنس کی مکمل حمایت کر دی، میاں محمودالرشید کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔ اجلاس میں جماعت اسلامی سے ڈاکٹر وسیم اختر، ق لیگ سے وقاص حسن موکل جبکہ تحریک انصاف سے رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر مراد راس، وحید اصغر ڈوگر، شنیلا روتھ نے شرکت کی۔ بعدازاں مشترکہ پریس کانفرنس میں میاں محمودالرشید نے کہا کہ پانامہ دستاویزات کی تحقیقات کیلئے بننے والی جے آئی ٹی رپورٹ میں واضح ہے کہ وزیراعظم اور انکا خاندان بیرون ممالک میں موجود اپنے اثاثہ جات کے حوالے سے منی ٹریل پیش نہیں کر سکا، رپورٹ میں وزیراعظم کی آف شور کمپنی کا بھی انکشاف کیا،کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات پر بھی حکمران خاندان اپنی صفائی میں کوئی ثبوت نہ پیش کر سکا ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف حدیبیہ پیپرز ملز سکینڈل کے مرکزی کردار ہیں، وزیراعلیٰ نے اپنے خاندان کو فائدہ دلانے کیلئے شوگر ملوں کی غیر قانونی منتقلی کا حکم دیا جو توہین عدالت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے حلف سے روگردانی بھی ہے، اس کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب پانامہ کیس میں بطور ملزم پیش ہوئے جس پر عدالتی میں مقدمہ زیر سماعت ہے ، لہٰذا وزیراعلیٰ کا بھی اپنے عہدے پر رہنے کا آئینی وقانونی جواز باقی نہیں رہا ، اس لئے تمام جماعتوں کے پارلیمانی لیڈرز وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے فوری طور پرمستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے ڈاکٹر وسیم اختر اور مسلم لیگ قائداعظم کے وقاص حسن موکل نے کہا کہ ماضی میں مسلم لیگ ن ملک کے سب سے بڑے آئینی ادارے سپریم کورٹ پر حملے جیسا مکروہ فعل سرانجام دے چکی ہے، اب بھی حکمران جماعت کی جانب سے سخت اشارے دیئے جا رہے ہیں جس سے ملک میں شدید بدامنی اور جمہوریت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، لہذا تمام سیاسی جماعتیں اور پوری قوم ایسے عزائم کوناکام بنانے کیلئے تیار ہے اور حکمرانوں کو کسی صورت جمہوریت یا ملکی اداروں کے خلاف گھنائونا کھیل کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔محمود الرشید نے کہا مجلس وحدت المسلمین، مذہبی جماعتوں، سول سوسائٹی کے ارکان اور وکلاء سے رابطے کئے جائیں گے۔سیکرٹری جنرل جماعت اسلام پاکستان لیاقت بلوچ نے ق لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین، صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر، علامہ ساجد نقوی اور میاں منظور احمد وٹو سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ محمود الرشید نے عمران کی ہدایت پر عوامی تحریک کے رہنماؤں سے ملاقات کی اس موقع پر خرم نوا گنڈا پور، نور اللہ صدیقی، سید صمصام علی بخاری سمیت دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ عوامی تحریک کے رہنما خرم نواز گنڈا پور نے کہا کہ پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کا سفر مشترک ہے ہفتے کو تحریک انصاف ہمارے احتجاج میں بھرپور شرکت کرے گی۔ سیکرٹری اطلاعات سید صمصام علی بخاری نے کہا کہ (ن) لیگ کے درباری جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد وزیراعظم کو نہیں بچا سکتے۔
اپوزیشن
لاہور (مبشر حسن/ دی نیشن رپورٹ) پیپلز پارٹی قبل از وقت الیکشن کے حق میں نہیں اور چاہتی ہے کہ مسلم لیگ ن حکومت نواز شریف کے بغیر اپنی مدت پوری کرے جبکہ جماعت اسلامی بھی قبل از وقت الیکشن کے مطالبے کی حامی نہیں اور خیال کرتی ہے کہ اس سے احتساب کے جاری عمل کو دھچکا لگے گا جبکہ مسلم لیگ ق تحریک انصاف کے فیصلے کے ساتھ ہے اور ملک میں جلد نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف نے گذشتہ روز مسلم لیگ ن کی طرف سے نیا وزیراعظم نامزد کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے قبل از وقت الیکشن کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے یہ ضروری ہے بابر اعوان کا کہنا تھا کہ صرف نواز شریف کا استعفیٰ ہی کافی نہیں تاہم پیپلز پارٹی کا ان کے اس مطالبے سے اختلاف کی بات وزیراعظم کی حمایت میں جاتی ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما چودھری منظور نے دی نیشن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی قبل از وقت الیکشن کے مطالبے کی حمایت نہیں کرتی اور چاہتی ہے مسلم لیگ ن نئے قائد ایوان کے ساتھ مدت پوری کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ قبل از وقت الیکشن کے مطالبے سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے کسی طرف سے سازش نہیں ہونی چاہئے انہوں نے زور دیا کہ نواز شریف کے عہدے پر موجودگی سے جمہوریت کو خطرات لاحق رہیں گے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی فوری الیکشن کیلئے تیار نہیں جبکہ تحریک انصاف کا اس حوالے سے خیال ہے کہ مسلم لیگ ن میں پانامہ لیکس سکینڈل کے بعد ٹوٹ پھوٹ متوقع ہے اور ایسے میں نئے الیکشن کا ان کو فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کے کئی رہنما پی ٹی آئی میں شمولیت کے منتظر ہیں۔ ادھر مسلم لیگ ق کے سیکرٹری اطلاعات کامل علی آغا نے کہا ہے کہ ان کی جماعت قبل از وقت الیکشن کی حامی ہے اور یہ وقت کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق قبل از وقت الیکشن کی تیاری بھی کر رہے ہیں جماعت اسلامی کے رہنما امیرالعظیم نے کہا کہ ہمارا بنیادی مطالبہ احتساب ہے اور یہ تمام سیاستدانوں کا ہونا چاہیے اور اگر ملک الیکشن کی طرف جاتا ہے تو احتساب کا جو آغاز ہوا ہے ہر معاملہ رک جائے گا۔ فضل الرحمن اور اسفند یار ولی حکمران جماعت کے ساتھ ہیں جبکہ اس حوالے سے متحدہ کے کسی رہنما نے کوئی موقف نہیں دیا۔ علاوہ ازیں پاکستان عوامی تحریک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے وفد جس نے گزشتہ روز عوامی تحریک کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔ انہیں قبل ازوقت الیکشن کے مطالبے پر حمایت حاصل نہیں ہو سکی۔ عوامی تحریک کے ترجمان نوراللہ صدیقی نے تصدیق کی ہے کہ ان کی پارٹی قبل از وقت الیکشن کی حامی نہیں ہم احتساب چاہتے ہیں۔
جماعتوں میں اختلاف
اسلام آباد + کوئٹہ (نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) وزیر اعظم نواز شریف کی حمایت میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے بعد بی این پی بھی کھل کر سامنے آ گئی۔ بی این پی کے سربراہ نے استعفیٰ مانگنے والوں کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ سب کو عدالتی فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔ محمود اچکزئی نے کہا ہے امن ہو تو پاکستان اب بھی ایشیئن ٹائیگر بن سکتا ہے۔ سی پیک کیلئے امن ضروری ہے۔ محمود خان اچکزئی نے آرمی چیف سے درخواست کی کہ شفاف الیکشن کی ضمانت دیں۔ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے نواز شریف کے ساتھ ہمارا اتحاد جمہوریت کیلئے ہے، چاہے جتنا بھی نقصان اٹھانا پڑے ہم جمہوریت کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کسی کو جمہوریت کی بساط لپیٹنے نہیں دیں گے۔ کرپشن کو ملک میں آج تک ڈیفائن نہیں کیا گیا اس مسئلے پر گول میز کانفرنس ہونی چاہئے۔ ماضی میں لوگوں نے پارلیمنٹ کی دیواریں توڑ کر وہاں خیمے لگائے اور دھرنے دئیے لیکن ہم نے کبھی بھی غیرجمہوری قوتوں کا ساتھ نہیں دیا۔ اگر آئین کو چھیڑا گیا تو پاکستان کو کو نقصان ہو گا۔ کرپشن پاکستان کی سب سے بڑی بیماری ہے۔ کرپشن کے مسئلے پر گول میز کانفرنس ہونی چاہئے۔ کرپشن کی آڑ میں کسی ایک کو نشانہ بنانا سیاسی کارروائی ہے۔ جے آئی ٹی اگر کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہے تو اچھی بات ہے، انہوں نے کہا ملک میں ماضی میں پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا، دھرنے دئیے گئے، 12 مئی کو کراچی میں قتل و غارت کی تحقیقات ابھی تک نہیں ہوئی۔ نوازشریف سے کوئی اور مقبول و معروف رہنما نہیں ہے۔ ملک معمولی غلطی کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔ آئین اور پارلیمان کی بالادستی ہو تو پاکستان کو کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ایک ڈاکو کی جانب سے جیب کترے کو چور کہنا درست نہیں، بتایا جائے کہ 100، 100 روپے میں ایک ایک ایکڑ اراضی دینا کیا کرپشن نہیں؟ ناانصافی کی بنیاد پر کوئی معاشرہ، خطہ، ملک اور نظام نہیں چل سکتا، افغانستان کی خودمختاری تسلیم کر کے اس کے ساتھ یورپی یونین میں شامل ممالک کے طرز پر برادرانہ تعلقات قائم کرنا ہم سب کی مفاد میں ہے، سعودی عرب، ایران چپقلش کے حوالے سے سنجیدگی کامظاہرہ کیا جانا چاہئے ورنہ یہاں گلی گلی خون خرابہ ہو گا، سیاست منتخب نمائندوں کا کام ہے فورسز کا کام نہیں، مجید خان کے حوالے سے سفارش ثابت ہوئی تو سیاست اور عہدہ دونوں چھوڑ دوںگا، دنیا جہاں کی بلائیں خطے میں موجود ہیںسنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا گیا توہماری حالت بھی اووروں سے بدتر ہوگی۔ محمودخان اچکزئی نے کہاکہ ایک بار پھر ملک سیاسی میں بھونچال آرہاہے ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم ملک میں برابری کا نظام چاہتے ہیں، پاکستان کو چلانے اور بچانے کا واحد راستہ جمہوری طرز حکمرانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو بڑے دھرنے اسلام آباد میں لگائے گئے اور126 دن تماشا لگایا گیا ان دھرنوں کے حوالے سے کیوں تحقیقات نہیں کی گئیں۔ ایک مرتبہ انہوں نے پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران جب اس خدشے کا اظہار کیاکہ کون گارنٹی دے سکتا ہے کہ جمہوریت کا تختہ نہیں الٹا جائیگا۔ اس تقریر کے دوران مجھے کہاگیاکہ اس طرح کے الفاظ کی ادائیگی سے مجھے اپنی سیٹ سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ ایک فوجی آفیسر ریٹائرڈ ہوا تو اس نے پنجاب میں شوگرملز لگانے کی کوششیں شروع کی بتایا جائے کہ آخر ایک آفیسر کس طرح شوگرملز لگا سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہم سیاست، صحافت، عدلیہ، انتظامیہ سمیت تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو قرآن پاک رکھ کر یہ عہد کرناہوگا کہ کرپشن نہیں کرینگے۔ میاں بیوی میں انصاف نہ ہو تو ان کی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسرکرنا ممکن نہیں ہوتا، ناانصافی کی بنیاد پر ملک چلانا کسی صورت ممکن نہیں یہاں مرغی چور کو عبرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اربوں کے کرپشن کرنیوالوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ صحافت اور سیاست سے وابستہ افراد بتائیں کہ معین الدین قریشی اور شوکت عزیز جو پاکستان کے وزیراعظم رہے ہیں کا تعلق پاکستان کے کن اضلاع سے تھا، انہیں کون لایا اور کون واپس لے گیا۔ انہوں نے پانامہ سے متعلق حکومتی وزراء کے الفاظ ناقص ضرور ہونگے لیکن ایک خاندان یا فرد کو ٹارگٹ کرنا ہم بھی درست نہیں سمجھتے، اگر کرپشن کا خاتمہ کرناہے تو سب کا بے رحمانہ احتساب کرنا ہو گا۔ انہوں نے کہاکہ اگر سعودی عرب اور ایران کی چپقلش میں ہم حصہ دار بنیں تو خدانخواستہ یہاں گلی گلی خون خرابہ ہوگا، اس وقت سب سے زیادہ خطرناک ارادے پاکستان کے حوالے سے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں کروڑوں انسانوں کا قتل وٖغارت کرنیو الے ممالک میں اب کوئی پاسپورٹ اور ویزا نہیں، پاکستان اور افغانستان کو بھی پاسپورٹ ختم کرکے ایک دوسرے کی آزادی اور خودمختاری کو تسلیم کرنا چاہئے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان چین سے بہتر گارنٹر کوئی نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہاکہ یحیٰ بختیار کے خلاف مجھ سے گواہی کا کہاگیا لیکن میں نے انکار کیا تو اس وقت میرے رشہ دار اور مجید خان کے والد کو ناحق گرفتار کیا گیا جس کے بعد میں نے واضح کہاکہ میرے خاندانوں والوں کو تختہ دار پر لٹکایا جائے تو بھی یحیٰ بختیار کے خلاف بیان نہیں دونگا۔علاوہ ازیں سیکرٹری جنرل اے این پی میاں افتخار حسین نے کہا ہے کہ جمہوری نظام چلنا چاہئے، سپریم کورٹ کے فیصلے تک صبر و تحمل سے کام لیا جائے۔ پانامہ پر اے این پی کا مؤقف واضح ہے، ہم سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ حتمی فیصلہ نہیں صرف سفارشات ہیں۔ جمہوریت کو بریک لگی تو ملک کا نقصان ہو گا، چینی سرمایہ کاری کیخلاف نہیں۔