زیادہ تر جعلی بنک اکاؤنٹ نوازشریف کے دور میں ہی کھولے گئے: رپورٹ
اسلام آباد (عترت جعفری) جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے جو تحقیق کی ہیں اس حصے میں کہا گیا ہے کہ ’’منی لانڈرنگ‘‘ کا سلسلہ 1991 میں شروع ہوا۔ میاں نوازشریف معاشی اصلاحات ایکٹ کے نفاذ کے وقت وزیراعظم تھے اور زیادہ تر جعلی بینک اکاؤنٹس اسی دور میں کھولے گئے۔ اسحاق ڈار کی کمپنی ہجویری مفارجہ کے ڈائریکٹر نعیم محمود نے جعلی اکاؤنٹس کھولے‘ اسحاق ڈار نے بھی مسعود خان‘ طلعت مسعود خان کے نام پر جعلی بینک اکاؤنٹس کھلوائے ‘ جعلی اکاؤنٹس کو اسحاق ڈار اور نعیم محمود چلا رہے تھے۔ جے آئی ٹی نے سفارش کی ہے کہ نئی شہادتوں کے باعث حدیبیہ پیپر کیس ری اوپن کیا جائے۔ بیگم کلثوم نواز کے اثاثوں میں ایک سال میں 17 گنا اضافہ ہوا حدیبیہ پیپر ملز کے حوالے سے تفتیش میں جائنٹ انسوسٹی گیشن ٹیم نے لکھا ہے کہ منی لانڈرنگ کا سلسلہ 1991ء میں شروع ہوا۔ اس سلسلہ میں جو ٹرائزیکشن کی گئیں ان کے مطابق سعید احمد اور مختار حسین کے اکاؤنٹس میں 22 لاکھ 38 ہزار 333 ڈالر جمع کرائے گئے۔ بعدازاں ان کھاتوں سے رقوم موسی غنی اور طلعت مسعود قاضی کے اکاؤنٹس میں ڈالر بیئرر سرٹیفکیٹس کی صورت میں منتقل کئے گئے۔ اس کا مقصد فنڈز کے سورس کو چھپانا تھا۔ رقوم کی جو بیرونی منتقلی ہوئی 3.9 ملین ڈالر برطانیہ بھیجے گئے۔ جائنٹ آئی ٹی نے رقم کے علاوہ بھی 3.55 ملین ڈالر کی منتقلی کا پتہ چلایا جو 1993 سے 1995ء کے درمیان لندن میں مختلف کمپنیوں یا افراد کو بھیجی گئی۔ 1992ء میں جب معاشی اصلاحات ایکٹ نافذ ہوا۔ میاں نوازشریف وزیراعظم تھے۔ زیادہ تر جعلی اور مشکوک بینک اکاؤنٹس کھولے گئے۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ 1991ء سے 1998ء کے درمیان کے عرصہ میں دھوکہ دہی پر مبنی فارن کرنسی اکاؤنٹس کھولے جاتے رہے۔ ان میں موجود رقوم کے بدلے قرضے لے گئے اور مختلف اداروں کے لیے استعمال ہوئے ۔ سعید احمد اور جاوید کیانی کے نام بھی حدیبیہ ملز مقدمہ میں شامل کئے جائیں۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اسحاق ڈار کی کمپنی ہجویری مضاربہ کے ڈائریکٹر نعیم محمود نے مختلف بینکوں میں بے نام بینک اکاؤنٹس کھولے۔جبکہ جاوید کیانی نے سلیمان ضیاء ‘ محمد رمضان اور اصغر علی کے ناموں پر 26 اگست 92ء میں ایچ بی اے زیڈ میں کھاتے کھولے۔ کھاتے کھولنے کا تمام دستاویزی کام جاوید کیانی نے خود کیا جس کی تصدیق ہینڈرائٹنگ ماہر نے کی ۔ 1992ء میں جاوید کیانی نے مختلف اکاونٹس کے ’’بے نام دار‘‘ کھاتوں میں رقوم بیرون ملک منتقل کرنا شروع کیں۔ متنوع انٹر بینک ٹرانسفرز کی گئیں اوران کے ذریعے کثیر رقوم منتقل کی گئیں۔ ان کا مقصد منی ٹریل کو چھپانے کے لیے ایک دھند پیدا کرنا تھا۔