چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ خود احتساب کے لئے پیش ‘ ملز کی معلومات فراہم
لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو احتساب کے لئے پیش کرتے ہوئے رضا کارانہ طور پر اپنی خاندانی ملکیتی ٹیکسٹائل ملز کے متعلق معلومات فراہم کر دیں۔ چیف جسٹس کی ہدایت پر رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے درخواست گزار کو اطلاعات فراہم کر دیں۔ رجسٹرار آفس کی جانب سے دو صفحات پر مشتمل اطلاع میں کہا گیا ہے کہ اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت سرکاری افسروں کی ذاتی زندگی کی معلومات حاصل نہیں کی جا سکتیں تاہم چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ان کی ٹیکسٹائل ملز اور بیٹے کے بیرون ملک علاج سے متعلق اطلاعات عوامی مفاد کے تحت رضا کارانہ طور پر جاری کر رہے ہیں۔ جن ٹیکسٹائل ملز کے ڈائریکٹر ہونے کے حوالے سے معلومات مانگی گئیں، وہ 1988ء میں فروخت کردی گئیں تھیں۔1990ء کو خریدار کو ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق یہ مل حوالے کردی گئی۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ڈائریکٹر کا عہدہ عدالت عالیہ کے جج بننے سے کئی برس قبل چھوڑ دیا تھا۔ اس عرصہ کے دوران چیف جسٹس کسی بھی کمپنی کے ڈائریکٹر نہیں رہے نہ ہی خاندانی کاروبار چلایا۔ چیف جسٹس نے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز رہتے ہوئے اپنی ٹیکساٹل ملز کے لئے کوئی قرضہ حاصل نہیں کیا نہ ہی کسی قسم کا قرضہ معاف کرایا۔ چیف جسٹس نے اپنے بیٹے اسماعیل شاہ کے بیرون ملک علاج کے لئے قانون کے تحت حکومت پنجاب سے رجوع کیا۔ چیف جسٹس کی درخواست پر حکومت کی جانب سے قائم میڈیکل بورڈ نے علاج کے لئے بیٹے کو بیرون ملک بھجوانے کی سفارشات دیں۔ حکومت نے چیف جسٹس کے بیٹے کے علاج کے لئے چونسٹھ لاکھ روپے کی رقم مختص کی۔ بیرون ملک علاج پر چوالیس لاکھ خرچ آیا جبکہ چیف جسٹس کی جانب سے بیس لاکھ کی رقم واپس سرکاری خزانے میں جمع کرائی گئی۔ چیف جسٹس نے انفارمیشن کمشن کو اپنی حالیہ انکم ٹیکس ریٹرن بھی بھجوا دیں۔ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کو عہدے سے ہٹانے کے لئے مقامی وکیل انوار ڈار نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔ جسے عدالت نے گزشتہ روز خارج کر دیا۔