• news

حسین اور حسن کا ریکارڈ نامکمل: جے آئی ٹی‘ برطانیہ میں کزن کی قانونی فرم سے خدمات لیں: واجد ضیا

لاہور (وقت نیوز+ نیشن رپورٹ + نمائندہ نوائے وقت) جے آئی ٹی کی رپورٹ والیم ٹو کے مطابق حسین نواز کے بیانات میں تضاد پایا گیا ہے۔ حسین نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے جھوٹ بولا کہ قطری شہزادے سے ملنے والی رقم سے حسن نواز نے برطانیہ میں اپنے بزنس کا آغاز کیا۔ حسین نواز نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ میاں شریف اور قطر کے شاہی خاندان کے درمیان کوئی دستاویزی معاہدہ نہیں ہوا تھا اور نہ ہی خلیجی ریاستوں میں اس دور میں ایسے معاہدوں کا کوئی تصور تھا تاہم جب 25سال بعد رقم کی سیٹلمنٹ کا معاملہ آیا تو تب بھی کوئی معاہدہ نہیں کیا گیا جبکہ حسین نواز کا بیان اپنے بھائی حسن نواز کے بیان سے بالکل مختلف ہے۔ حسن نواز نے کہا کہ انہیں لندن میں بزنس کے لیے حسین نواز نے 4.2 ملین پائونڈ دیئے جبکہ حسین نواز کے مطابق حسن نواز کو یہ رقم قطری شہزادے کے نمائندے سے موصول ہوئی تھی۔ جے آئی ٹی کے مطابق قطری خطوط کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ رپورٹ کے مطابق العزیزیہ سٹیل مل لگانے کی کہانی بھی جھوٹی ہے۔ جے آئی ٹی کو نامکمل ریکارڈ فراہم کیا گیا۔ غیرتصدیق شدہ نقول فراہم کی گئیں، حسین نواز نیلسن اور نیسکول کی جانب سے لندن فلیٹس کی منتقلی کے کاغذات بھی فراہم نہیں کرسکے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں الثانی فیملی کے دونوں خطوط میں تضادات کی نشاندہی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق الثانی نے قطر میں کیے جانے والے کاروبار کے اصل بینیفشری کی وضاحت نہیں ہوتی۔ پہلا خط 5نومبر 2016 کو لکھا جس میں کہا گیا کہ انہیں یاد ہے کہ میاں شریف کی خواہش تھی کہ قطر میں ان کی سرمایہ کاری اور رئیل سٹیٹ بزنس کا بینیفشری ان کا پوتا حسین نواز ہوگا جبکہ بھیجے جانے والے دوسرے خط میں ایک ورک شیٹ دی گئی جو حسین نواز کے علاوہ دوسرے فریقین کا بھی ذکر کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں خطوط اور حسین نواز کے بیانات میں قطر میں ہونے والے رئیل سٹیٹ کے کاروبار کے اصل بینیفشری کے حوالے سے تضادات پائے جاتے ہیں۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں حسن نواز کی جانب سے دی جانے والی کمپنیوں کے فنڈز اور ذرائع پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق 2001ء سے 2016ء تک دیئے جانے والے فلیگ شپ انویسٹمنٹ سمیت دیگر کمپنیوں کے ریکارڈ میں بہت سے اہم دستاویزات غائب ہیں۔ جے آئی ٹی نے والیم سیون میں جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ قطر سے ہونے والی فنڈنگ کا کوئی بنک ریکارڈ نہیں دیا گیا۔ حسن اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ کے اکائونٹس کی کوئی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں جس سے پتہ چلے کہ فنڈز حسین نواز سے لینے کا دعویٰ کس حد تک سچا ہے۔ فلیگ شپ انویسٹمنٹ اور حسن کا کوئی ٹیکس ریٹرن جے آئی ٹی کو فراہم نہیں کیا گیا۔ حسن کی جانب سے فراہم کردہ تمام ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ قطری ٹرانزیکشن کے حوالے سے دعوئوں کاکوئی فنانشل ریکارڈ نہیں۔ پراپرٹی کی خرید بھی متنازع ہے کیونکہ اس میں بتایا نہیں گیا کہ ٹرانزیکشن رقم کیا تھی اور پیسے کہاں سے لیے گئے۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق برطانوی کمپنیوں کا کوئی بنک ریکارڈ فراہم ہی نہیں کیا گیا۔ غیرملکی کمپنی کی حسن نواز نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیںکرائی۔ قرضوں کے حوالے سے بھی کوئی بنک شواہد فراہم نہیں کیے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ انٹر کارپوریٹ فنڈنگ کا بھی کوئی بنک پیپر فراہم نہیں کیا گیا۔ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے اعتراف کیا ہے کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات کیلئے جس برطانوی قانونی فرم کی خدمات حاصل کی گئیں وہ انکے کزن کی ملکیت ہے۔ واجد ضیا نے وضاحت کی ہے کہ فرم کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ تحقیقاتی ٹیم کے ارکان میں تبادلہ خیال کے بعد کیا گیا تھا۔ یہ کام معزز عدالت کے احکامات کے مطابق اور انٹیلی جنس ایجنسیوں سے کلین چٹ ملنے کے بعد کیا گیا تھا۔ واجد ضیا نے مزید کہا کہ فرم کی خدمات اسکی پیشہ وارانہ صلاحیت، شہرت کی بنیاد پر اور انکی جانب سے فیس میں کمی کے مطالبے کی ذاتی درخوا ست پر کم ریٹس پر حاصل کی گئی تھیں۔ واجد ضیا نے اعتراف کیا کہ میری اختر راجا کے ساتھ رشتہ داری ہے، وہ میرے فرسٹ کزن ہیں اور برطانوی قانونی فرم کوئسٹ سولیسٹر کے مالک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے تمام تر تصدیق اور مثبت رپورٹس کے بعد میں نے اختر سے درخواست کی کہ وہ اپنی فیس کم کریں اور وہ 35 فیصد کمی کرنے پر رضامند ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ ہنگامی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ پورا عمل چند روز میں مکمل کرلیا گیا۔ قانونی فرم کی کارکردگی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انہوں نے نہ صرف ہمیں قانونی مشورہ دیا بلکہ فارنزک ماہر رابرٹ ڈبلیو راڈلے کی ماہرانہ رائے لینے میں بھی مدد فراہم کی۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ احتساب عدالتوں میں شریف فیملی کے خلاف 32ریفرنسز (مقدمات ) زیر التواء تھے جبکہ نیب کے چیئرمین نے اپنے چار سالہ دور کے دوران 10ریفرنس ختم کیئے جبکہ 9 ریفرنس میں عدالتوں سے فیصلہ خلاف آنے کے باوجود اپیلیں دائر نہیں کی گئیں اس حوالے سے جے آئی ٹی میں چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلوں کو چیلنج نہ کرنے کا مشورہ نیب کے لیگل ایڈوائزرز نہیں دیا تھا‘ ان مقدمات میں حدیبیہ پیپرز ملز کیس فیصلہ بھی شامل ہے۔جے آئی ٹی نے 6 ممالک کو باہمی قانونی امداد کیلئے 21 درخواستیں بھیجی تھیں جن میں سے صرف 5 درخواستوں کا جواب موصول ہوا تھا۔ باہمی قانونی امداد کیلئے تمام درخواستوں کے جواب کے بغیر جے آئی ٹی رپورٹ مکمل تصور نہیں کی جا سکتی۔ جے آئی ٹی نے مریم نواز شریف کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے رحمن ملک کے بیان میں واضح تضاد پایا ہے۔ جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں شریف خاندان کی طرف سے منی لانڈرنگ اور قرضوں کے وصول کیلئے کئی بے نامی اکائونٹس استعمال کرنے کا سراغ لگایا ہے۔
اسلام آباد (محمد صلاح الدین خان )جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم تین میں شریف فیملی کے عزیز طارق شفیع نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے شریف فیملی کے بزنس کے حوالے سے اہم انکشافات کئے، ان کا کہنا تھا کہ گلف سٹیل ملزان کا خاندانی کاروبار تھا، دبئی میں گلف سٹیل ملز قائم کرنے کے لئے میاں شریف نے کرایہ پر جگہ حاصل کی اس کیلئے بینک آف کریڈیٹ اینڈ کمر شل انٹر نیشنل سے ذاتی گارنٹی پر قرضہ حاصل کیا گیا ، میں طارق شفیع 9جولائی 1974کو پاکستان سے دبئی پہنچا ،کاغذات میں میرا نام استعمال ہوا ، معاہدے کے مطابق شریف فیملی کے میاں شریف، میاں اقبال برکت ، میاں پرویز شفیع، میاں عباس پارٹنرز تھے، میں نے ایگریمنٹ سائن کئے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں طارق شفیع کا بیان حلفی، یو اے ای وزارت انصاف کو جے آئی ٹی کی جانب سے لکھے گئے خطوط ان کے جوابات،کاروبار کرنے کے اجازت نامے، گلف سٹیل ملز کے کاروباری خطوط،طارق شفیع کا دبئی آنے جانے کا سفری ریکارڈ، سیل شیئرز کنٹریکٹس1978ء اور 1980ئ، دبئی کورٹ کی جانب سے دسمبر 1994ء میں جاری ڈگری کی کاپیاں موجود ہیں۔ طارق شفیع نے جے آئی ٹی میں اقرار کیا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی ملکیت کو حسین نواز نے اپنے ٹی وی انٹر ویو میں تسلیم کیا ہے جبکہ بعدازاں تقریوں میں اسکی ملکیت کو تسلیم کیا ہے مگر ان کی خریداری کے حوالے رقم بارے کو کچھ نہ بتا سکے۔انہوں نے اقرار کیا کہ گلف سٹیل سیکریپ کی دبئی سے جدہ میں عزیزیہ سٹیل ملز کیلئے ترسیل کیلئے ٹرانسپوریشن ایل سی کھولی گئی ۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق گلف سٹیل ملزم سیل کنٹریکٹ کے مطابق ملزکے ذمہ اجب الادا رقم 36,023,899.91 یو اے ای درہم تھی۔ مسٹر عبداللہ خالد الٰہی نے 21,375,000.000 درہم کی ایڈجسٹمنٹ کی گئی۔75 فیصد شیئرز کی مد میں 14,648,899.91 درہم کی رقم ادا کی گئی۔1980کے سیل کنٹریکٹ کے تحت باقی 25 فیصد شیئر کی رقم 12,000,000.00 درہم بھی ادا کردی گئی۔ واضح ہے یہ 12ملین دہرم قطر کی الطانی فیملی کی جانب سے بغیر کسی دستاویزی ثبوت کے دیئے گئے جن سے سعویہ اور برطانیہ میں بزنس قائم کئے گئے، لندن فلیٹس خریدے، التوفیق کمپنی بنی، الطانی فیملی کے ان ہی 12ملین درہم کے حوالے سے سپریم کورٹ کے پانامہ لیکس کے پانچ رکنی بنچ نے ریمارکس دیئے تھے کہ یہ کیسے 12 ملین بابرکت درہم ہیں جو سالوں سے چل رہے اب تک ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں۔ 12 ملین درہم کی ادائیگی کے بعد گالف سٹیل ملز کا بیلنس خسارہ 2,648,899.91 درہم رہ گیا تھا۔

ای پیپر-دی نیشن