پانامہ ہنگامہ پیالی میں طوفان
پانامہ کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سماعت مکمل اور فیصلہ محفوظ ہوگیا۔جے آئی ٹی کے ارکان نے بلاشبہ اپنی رپورٹ بڑی جانفشانی اور عرق ریزی سے تیارکی۔ حکمران جماعت بشمول وزیراعظم نواز شریف اور انکے خاندان کے لوگ جس طرح جے آئی ٹی کے ارکان کے خلاف برستے رہے یہ رویہ انکے احساس جرم کوہویدہ کرتا اور عوام کیلئے جے آئی ٹی کی ساکھ پر اعتبارکواعتماد دیتا ہے۔مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کیس کے پیچھے کوئی موجود ضرورہے مگر کسی سازش کا شائبہ تک نہیں۔میاں نواز شریف کے خلاف اگر کوئی سازش ہوسکتی ہے تو اس میں انکی کچن کیبنٹ کے موجودہ یا کچھ سابقون کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔فوج اور عدلیہ کو شاہ سے زیادہ شاہ سے وفاداری دکھانے والے موردِ الزام ٹھہر ارہے ہیںمگر کسی کانام لینے کی کسی میں جرأت اس لئے نہیں کہ یہ سب مفروضوں پر الزام تراشی سے زیادہ کچھ اپنی وزارتیں مزید پکی کرنے اور کچھ وزارت کا منصب پانے کیلئے کاسہ لیسی کررہے ہیں۔فاضل جج مسٹر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے دو سنیئر ججز نے وزراعظم کو اس بنا پر نااہل قرار دینے کی سفارش کی کہ ان کے سامنے پیش کئے گئے شواہد کے مطابق وہ صادق اور امین نہیں رہے تھے جبکہ دیگر تین ججز نے وزیر اعظم کو صادق اورامین تو قرار نہیں دیاالبتہ اہلیت اور نااہلیت کے حتمی نتیجے تک پہنچنے کیلئے انکوائری کی تجویز دی جس سے پانچ کے پانچ ججز نے اتفاق کیایوں پانچ رکنی بنچ کا یہ متفقہ فیصلہ قرار پایا جس کے نتیجے میں ایک جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جس نے معینہ مدت میں اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کردی۔ حکمران پارٹی نے جے آئی ٹی کی تشکیل پر مٹھائیاں بانٹیں، وزیراعظم کے پلے پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے بعدعزت ،وقار نہ ساکھ ، کچھ نہیں رہا تھامگر وہ محض اپنی وزارتِ عظمیٰ بچ جانے پرسرخروہونے کا فخریہ اظہار کررہے تھے۔اسی جے آئی ٹی کے ممبران پرجب حکومتی حلقوں کی جانب سے الزام اور دشنام کی بارش ہونے لگی تو عام آدمی بھی سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ ان لوگوں کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کیلئے ٹھوس، ثبوت، شواہد اور دلائل نہیں ہیں۔جے آئی ٹی کی تفتیش کے دوران تو زیادہ معلومات اور معاملات عوام کے سامنے نہ آسکے،ایسی رپوٹیں عموماً خفیہ رکھی جاتی ہیں، یہاں تو حمودالرحمن، اوجڑی کیمپ اور اسامہ بن لادن پر ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ سامنے نہیں آسکی تھی، نواز شریف خاندان کے بارے میں حکومت میں ہوتے ہوئے یہ رپورٹ کیسے جاری ہوسکتی تھی؟اور اس صورت میں جب سپریم کورٹ نے اسے اخفا میں رکھنے کا اظہارکیا تھامگر حکومت کے نادان مشیروں،ترجمانوں اور کاسہ لیسوں نے ادھر رپورٹ سپریم کورٹ پہنچی ادھر واویلا کردیا کہ اس میں راتوں رات تبدیلی ہوسکتی ہے۔یہ لوگ کہتے رہے تھے کہ جے آئی ٹی کو رپورٹیں کہیں اور سے مل رہی ہیں۔رپورٹ جمع ہونے کے دوسرے روز بعید نہیں شریف فیملی کے یہ ’’خیر خواہ‘‘جے آئی ٹی رپورٹ تبدیل کرنے کا بھی الزام لگا دیتے، اس لئے سپریم کورٹ نے اسی روز رپورٹ جاری کرنے کا حکم دیدیاجس سے لوگوں نے وزیراعظم کی نااہلی کا عمومی تاثرلیا۔ اس تاثر کو تقویت خود حکمران پارٹی کے ذمہ داروں نے بے معنی اور لایعنی بیانات دے کر دی۔نواز شریف گئے تو بچیں گے یہ بھی نہیں،ان کو چھوڑیں گے نہیں۔حکومتی وکلاء محض ٹی وی چینل کے شیر ثابت ہوئے،بھلا یہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں کی جانیوالی باتیں ہیں کہ وزیراعظم ملازمت کریں تو آئین میں ممانعت نہیں،ٹیکنیکل غلطی ہوگئی،فلا ںکچھ سہواً ہوگیا۔ وزیراعظم کے ذاتی اور ان کے سرکاری وکلاء کے دلائل اور کیس لڑنے کے طریقے سے لیگی حلقے مایوس اور پریشان ہیں،اقتدار کے ایوانوں میں لرزا طاری ہے۔وزیراعظم کی ممکنہ نااہلی پر باتیں ہورہی ہیںاورمتبادل وزیراعظم لانے کی حکمتِ عملی طے کی جارہی ہے ۔ مشاورت کیلئے اجلاس پر اجلاس ہورہے ہیں۔وزیراعظم کی قانونی ٹیم تو گویا ہتھیار ڈال چکی ہے اسکی طرف سے کہا جارہا ہے کہ وزیاعظم کی نااہلی کا امکان بہت کم ہے گویا نااہلی کا امکان موجود ہے۔جے آئی ٹی کی رپورٹ اور سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران ججز کے ریماکس سے عمومی تاثر بھی وزیراعظم کیخلاف فیصلے ہی کا بن چکاہے اور یہ بے جا بھی نہیں ہے مگر مجھے وزیراعظم کہیں جاتے نظر نہیں آتے،انکے اگلے الیکشن تک اقتدار میں رہنے اور پانچ سال کی آئین مدت پوری کرنے کے قوی امکانات ہیں۔پانامہ ہنگامہ محض پیالی میں طوفان ثابت ہوگا،نواز شریف کے گرد ایک مصنوعی بحران کھڑا کیا گیا ہے۔ چودھری نثار علی خان اپنے اس وزیراعظم جس نے انہیں ہمیشہ عزت دی اعلیٰ ترین منصب دیتے رہے،کی خوشامد بھلے نہ کریں اس مشکل وقت میں تو انکی مشکلات میں مزید اضافے سے تو گریز کریں۔میاں صاحب کو جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ہیں۔میاں نواز شریف جنرل مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دینے پر آمادہ نہیں تھے،ان کو میاں شہبازشریف، چودھری نثار اور دیگر چند لوگوں نے قائل کیا۔شہباز شریف فوج کے ساتھ بگاڑنے کی پالیسی کیخلاف ہیں جبکہ چودھری نثار فوج کی زیادہ ہی قربت کے حامی ہیں۔ضیاء دور میں وہ فوج کے اتنے قریب ہوئے کہ پھر مشرف کے آمرانہ دور میں بھی فوج سے دور نہ ہوسکے۔وزیراعظم نواز شریف نے دل پر جبر کرکے اپنے ساتھیوں کی خواہش پر مشرف کو ملک سے جانے کی اجازت دیدی اب کچھ لوگ مشرف کو پاکستان کی سیاست میں ان کرنا چاہتے ہیں جس پر نواز شریف تیار نہیں۔ علم الاعداد کی روشنی میں جنرل پرویز مشرف کا پاکستان کی سیاست اور سیادت میں کوئی کردار نظر نہیں آتا۔
آج نواز شریف معروضی حالات میں پریشان ضرور ہیںمگر یہ محض وقتی پریشانی ہے۔انکے بارے میں سپریم کورٹ سے جو بھی فیصلہ آئے گا وہ کسی گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہرگز نہیں،فیصلہ یقینا انصاف پر مبنی ہوگا ججز کسی دبائو میں نہیں ہیں،پاکستان میں کرپشن جس نہج پر ہے کوئی باضمیر پاکستانی کرپشن اور کرپٹ لوگوں کی حمایت نہیں کرسکتا مگر کسی کی گردن ناپنے کیلئے ثبوتوں،ناقابل تردید ثبوتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کیس میں مجھے لگتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کیخلاف ان کو نااہل قرار دینے کے مکمل اور ٹھوس ثبوت نہیں ہیں اس لئے ان کے نااہلی سے بچنے کا بین امکان ہے۔ستارے بھی سردست انکے عروج ہی کا اظہار کررہے ہیں۔بالفرض انکی نااہلیت کا فیصلہ ہو ہی جاتا ہے جس کا ہم نے پہلے کہہ دیا ہے کہ امکان کم ہے تو پھر پاکستان کی موجودہ سیاسی ایلیٹ میں سے خال خال ہی سیاست دان بچ پائیں گے۔عمران خان کو بھی میاں نواز شریف جیسی منی ٹریل کا سامنا ہے۔زرداری تو اس میدان کے سب سے بڑے شہسوار ہیںجس میں داخل ہونے پر نواز شریف اہلیت اور نااہلیت کے دوراہے پرہیں۔فضل الرحمٰن محفوظ رہیں گے نہ اسفند یارولی اور اچکزئی و خورشید شاہ کی کہیں پناہ ملے گی سب ایک چھت تلے چکی پیس رہے ہونگے۔