بیمار، چمتکار، دُھتکار، ہوشیار
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چیئر مین ایس ای سی پی ظفر حجازی کو ہم دس دن بھاگتے دوڑتے دیکھتے رہے۔ وہ بہت جوش و خروش سے ایک 25 سال کے نوجوان کی طرح پھرتیاں دکھاتے رہے۔ یہاں تک کہ جب ظفر حجازی پر الزام ثابت ہوا تب بھی وہ بہت اکڑے اکڑے پھرتے رہے لیکن جونہی ایف آئی اے کی ٹیم نے انہیں گرفتار کیا۔ ٹھیک پانچ منٹ بعد ان کی طبیعت بگڑ گئی۔ دس منٹ میں انہیں دنیا جہان کی بیماریاں لگ گئیں۔ بہت اہتمام کے ساتھ انہیں پمز پہنچا دیا گیا۔ جہاں ذرا سی دیر میں وی سی پمز جاوید اکرم نے بیان دیا کہ جی ظفر حجازی کی طبیعت انتہائی ناساز گار ہے۔ انہیں کسی صورت ہسپتال سے ڈسچارج نہیں کیا جا سکتا۔ اب آپ کو پتہ چلا کہ جونہی جسمانی ریمانڈ لیا جاتا ہے۔ جیل کی شکل دکھائی دینے لگتی ہے تو کیسی کیسی ان دیکھی بیماریاں لگ جاتی ہیں۔ دنیا میں پاکستانی ڈاکٹروں کی تمام تر نااہلی کے باوجود چاندی رہتی ہے۔ پاکستانی ڈاکٹر دور افتادہ، ٹوٹے پھوٹے گھروں، پسماندہ علاقوں سے آتے ہیں اور لاہور، اسلام آباد، کراچی کی پوش سوسائیٹیوں میں رہنے لگتے ہیں۔
دو چار سالوں میں ان کے پاس بیش قیمت گاڑیاں بھی آ جاتی ہیں کیونکہ سیاسی مریضوں کو مرضی کی بیماریاں بتا کر لاکھوں وصول کر لئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم ملک کا کیس ہی لے لیں۔ نوجوانوں کی طرح 63 سال کی عمر میں بھاگے پھرتے تھے۔ جونہی پکڑے گئے چار پانچ انواع و اقسام کی بیماریاں لاحق ہو گئیں۔ کبھی فوٹو سیشن کے لئے ماسک لگوا لیا۔ کبھی ڈرپ اور کبھی بیڈ پر لیٹ گئے۔ آصف زرداری جتنا عرصہ جیل میں رہے۔ کبھی بیساکھی لیکر چلتے تھے کبھی بستر پر پڑے ہوتے تھے حالانکہ اس وقت آصف زرداری کی عمر چالیس سال تھی لیکن اب دیکھئے 68 برس کی عمر میں چالیس سال کے دکھائی دیتے ہیں۔ جیل جا کر ان کی زبان بھی کٹ گئی۔ جس آدمی کی زبان کٹ جائے وہ ہکلا ہو جاتا ہے لیکن آصف زرداری کی زبان تو تیز گام سے زیادہ تیز چلتی ہے۔ آج وہ بڑھاپے کی دہلیز پر ایک جوان، تر و تازہ، صحت مند دکھائی دیتے ہیں لیکن ابھی چند ماہ بعد دیکھئے گا کہ جونہی کیس چلا اور انہیں جیل ہوئی تو آصف زرداری کو دل، گردے، پھیپھڑے کی تکالیف عود کر آئیں گی۔ سیاستدانوں کا عجیب چلن ہے جب جیل سے بچنا ہو یا مشکل صورتحال ہو یا بحران کا سامنا ہو تو یہ ہٹے کٹے سیاستدان فوراً موذی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اکتوبر 1999ء سے دسمبر 2000ء تک ن لیگ کی قیادت ان دیکھی بیماریوں کا شکار تھی۔ میاں نواز شریف کو عجیب و غریب بیماریوں نے گھیر لیا تھا۔ شہباز شریف ان دیکھی اور نا تشخیص کردہ بیماریوں کی شکایت کرتے تھے مثلاً جوڑوں کا درد، گنٹھیا کا درد، گیس کی تکلیف، کمر کا درد، پٹھوں کا درد یعنی بے شمار درد تھے اور ایک شہباز شریف تھے لیکن جدہ جاتے ہی اگلے دن تمام درد کافور ہو گئے۔ دو تین سال بعد جب محلات، کھابوں، تخلیوں اور آسائشوں کے بعد جب گھی لگی بندھی زندگی سے بور ہو گئے تو شہباز شریف کو پھر دردیں ستانے لگیں۔ شہباز شریف نے جنرل پرویز مشرف سے لندن جانے کی اجازت لے لی۔ شہباز شریف کی دیکھا دیکھی انتہائی صحت مند حسن نواز شریف ان دیکھی بیماری میں مبتلا ہو گئے اور وہ بھی بہانے سے جدہ سے بھاگ لئے۔ اس تراشیدہ بیماری کے نام پر نواز شریف بھی لندن جانے لگے۔ بیماری کے نام پر ہمارے عام لوگ چھٹی لے لیتے ہیں اور سیاستدان بڑے بڑے مفادات حاصل کر لیتے ہیں۔ بیماری کے نام پر ہمارے ہاں جو چمتکار ہوتا ہے۔ پوری دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ جب گزشتہ سال نواز شریف بحران کے گرداب میں تھے اور توقع تھی کہ انہیں فارغ کر دیا جائے گا تو اچانک وہ بیمار ہونا شروع ہو گئے۔ پھر ساری دنیا نے وہ چمتکار دیکھا جو کسی نے نہیں دیکھا کہ وزیراعظم کو اچانک ہارٹ پرابلم ہوا۔ ایک پرائیویٹ ہسپتال میں انکی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی اور تیسرے دن وہ لندن کے ہوٹلوں میں پیزا برگر کھا رہے تھے اور چوتھے دن اپنے لئے ایک معروف مارکیٹ کے مشہور و معروف پلازے سے اپنے لئے گھڑی خرید رہے تھے۔
پانچویں دن وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ جوگنگ کر رہے تھے۔ یہ دنیا کی واحد اوپن ہارٹ سرجری تھی جس کے ایک ماہ بعد انہوں نے ایک صحت مند دس سالہ بچی کو الٹے ہاتھ سے گود میں اٹھا لیا اور سیدھے ہاتھ سے لوگوں کو ہاتھ ہلاتے رہے۔ اس لئے مریم اورنگزیب ٹھیک کہتی ہیں کہ نواز شریف 2018ء اور 2023ء میں بھی وزیراعظم بنیں گے۔ ہم تو انکی قابل رشک صحت دیکھ کر کہیں گے نواز شریف اتنے طاقتور ہیں کہ وہ 2028ء اور 2035ء میں بھی وزیراعظم ہونگے کیونکہ 2028ء میں کہیں جا کر وہ 70 سال کے ہونگے۔ سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وزیراعظم کی ہارٹ سرجری پر بھی سوموٹو لیں کیونکہ اس شاہی سرجری پر کم و بیش 44 کروڑ خرچہ آ چکا ہے۔ پورا شاہی خاندان اس ہارٹ سرجری پر پکنک منا چکا ہے۔ اب ایک اور محیر العقول کیس سنیئے کہ میاں شہباز شریف کی آنکھ کا آپریشن ہفتہ کو ہوا اور اتوار کو انہوں نے کام شروع کر دیا۔اب حیرت انگیز طور پر الیکشن کمشن نے وہ کاغذات بھی نواز شریف کو دیدیئے جس میں انہوں نے اپنے چیئر مین ہونے کا ذکر کیا ہے۔ حیرت ہے کہ وہ کاغذ اور سیاہی بالکل نئی نویلی ہے اور اتنے مہینوں سے مقدمہ چل رہا ہے تو یہ دستاویز پہلے کیوں برآمد نہیں ہوئی اور عدالت میں پہلے کیوں نہیں بتایا۔