• news
  • image

خاموش ہو گیا چمن بولتا ہوا !!!

اصغر شاد ہمہ جہت شخصیت‘ کہنہ مشق صحافی‘ بے لوث سماجی کارکن اور غریب پرور انسان دوست تھے۔ چیتے کا جگر اور شاہین کا تجسس رکھنے والے نے جگر کے عارضے سے طویل جنگ لڑی ان کی رحلت نے اپنوں بیگانوں کو حیران و پریشان کر دیا … ’’خاموش ہو گیا ہے چمن بولتا ہوا‘‘
گزشتہ سے پیوستہ آواز کو ساڑھے پانچ بجے قائداعظم انٹرنیشنل ہسپتال کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں وہ لمحہ موجود آ گیا جس کا کھٹکا سا لگا رہتا تھا، موت برحق ہے اور ہر ذی روح نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن؎
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامتی رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں‘‘
کے مصداق زندگی شان سے گزرے اور موت ایمان کے ساتھ آئے۔ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے کرتے جان، جان آفرین کے سپرد کر دے تو وہ زندگی اور موت قابل رشک ہوتی ہے۔ اصغر شاد کے سفر آخرت میں ہر شعبۂ زندگی کے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ ان کی عوامی مقبولیت اور محبوبیت کا مظہر تھی جو یقیناً ان کی مغفرت کی دلیل تھی جو ان کی صحافتی اور عوامی خدمات کا اعتراف بھی تھا۔ وہ ایک محنتی اور کہنہ مشق صحافی تھے، کالم نگار، فیچر رائٹر، مصنف، ڈرامہ نگاری، عالمی سیاح، بائیو گرافر، ٹی وی اینکر اور سب سے بڑا کہ غریب پرور اور انسان دوست سماجی کارکن۔
سخن ور‘ نغمہ گر‘ آشفتہ سر‘ سودائی‘ ہرجائی
خداوندا تری دنیا میں ہم کیا کیا نہ کہلائے
وہ نوائے وقت فیملی کے رکن تھے سچے اور پکے نوائے وقتیے تھے اس گھر میں کئی بار آمد و رفت ہوئی مگر سوائے ا یک بار یاری دوستی میں ایک اخبار کی ایڈیٹری کا تلخ تجربہ کرنے کے کبھی کوئی اور دروازہ نہ دیکھا‘ نہ کھٹکھٹایا۔ معمار نوائے وقت ڈاکٹر مجید نظامی اور شہید وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو ان کی آئیڈیل شخصیات تھیں۔ اول الذکر کی سوانح عمری ضبط تحریر میں لانے کیلئے اسلام آباد اور لاہور اور مواخرالذکر کی سوانح عمری کے لئے دوبئی اور لندن میں طویل انٹرویوز کئے تھے مگر ڈاکٹر مجید نظامی کی سوانح عمری ان کی زندگی میں بوجوہ منظر عام پر نہ آ سکی جو اب ان کی وفات کے بعد شائع ہونے کا امکان ہے جبکہ بینظیر بھٹو شہید کی سوانح عمری نے خاصی مقبولیت حاصل کی تھی۔ وہ دوستوں کے دوست تھے اور غریبوں کے محسن اور مربی اور یہی ان کی ہمہ جہت شخصیت کا طرۂ امتیاز تھا۔ راولپنڈی شہر اور کینٹ کے سنگم پر واقع گوالمنڈی کے پسماندہ علاقے میں آنکھیں کھولیں اور ایک سیلف میڈ انسان کی حیثیت سے اس پسماندہ علاقے کے غریب اور پسماندہ عوام کی خدمت کے لئے خود کو وقف کر دیا۔ اس سلسلے میں کچھ کر گزرنے کی دھن ان کے دل و دماغ میں ہر وقت رچی بسی رہتی تھی۔ انہوں نے وہاں رئیلٹی ویلفیئر آرگنائزیشن کے ذریعے فری میڈیکل سنٹر کے کامیاب تجربے کے بعد رئیلٹی لنگر کا اجراء حالیہ یکم رمضان کی افطاری سے کیا وہ اس کی افتتاحی تقریب کے دولہا تھے اور ایسے لگتا ہے کہ انہیں کسی کی نظر لگ گئی تھی کہ اس کے بعد ان کی صحت دن بدن گرنے لگی تھی یہ ان کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ راقم کو اس پروقار تقریب کی سٹوری میں اپنا نام نہ لکھنے کی تاکید کر دی وہ غریب اور مستحق افراد کی امداد کے لئے جنون کی حد تک ہر وقت مستعد اور کمربستہ رہتے۔ خود ان کی درخواستیں لکھتے‘ شناختی کارڈ کی کاپیاں بنواتے اور ان کی مالی امداد کے لئے کوششیں کر کے سکون قلب حاصل کرتے۔ ان کی سماجی خدمات کا دائرہ آزاد کشمیر تک پھیلا ہوا تھا۔ 2005ء کے قیامت خیز زلزلے کے بعد امدادی ٹیم اور سامان لے کر مظفر آباد گئے۔ پاکستان بیت المال کے اس وقت کے ایم ڈی زمرد خان کے ساتھ ان کا رابطہ دوستی اور تعلق بھی اسی انسانی خدمت کے جذبے کے تحت تھا اور وہ سیلاب سے متاثرہ جنوبی پنجاب کے علاقوں میں بھی ان کے ساتھ شانہ بشانہ رہے۔ وہ نہ صرف احترام انسانیت کے شرف سے بہرہ مند تھے بلکہ دفتر میں ساتھیوں کے ساتھ ہمیشہ احترام‘ محبت اور مروت سے پیش آتے۔ ان کی پیشانی پر بل اور دماغ میں تکبر کا شائبہ نہ تھا یہی اوصاف ان کی شخصیت کا طرۂ امتیاز تھے۔ ان کی وفات سے پانچ روز قبل میں حاجی چودھری کالا خان (جو مرحوم کے لئے احترام اور محبت کے جذبات رکھتے ہیں) ان کی معیت میں ہسپتال گیا جہاں ان کے صاحبزادے عمران اصغر اور ہمارے دفتر کے ساتھی صفدر خان مغل موجود تھے۔ عمران نے اپنے والد کی طویل بیماری کے دوران خدمت گزاری میں جنت کما لی ہے۔ میں کچھ دیر بیٹھنے کے بعد چلنے لگا تو اصغر شاد صاحب نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کے لئے کہا‘ پھر میرا اور باقی دونوں حضرات کے نام لئے میں نے انہیں ’’آپ ٹھیک ہو جائیں گے‘‘ کا روایتی دلاسہ دیا اور مصافحہ کر کے آ گیا‘ یہی ان سے آخری ملاقات ثابت ہوئی۔ ہمارے ساتھی فوٹو گرافر چودھری محمد جاوید اتوار کو ان سے مل کر آئے تو مجھے تشویشناک صورتحال سے آگاہ کیا۔ میں نے صفدرخان کو فوری طور پر روانہ کیا اور ابھی خود جانے کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ ان کی روح کے قفس عنصری سے پرواز کر جانے کی روح فرسا اطلاع ملی تو ان کے ساتھ کئی سال کی رفاقت اور اب پیدا ہونے والے خلا کو ہم آہنگ کرتا۔۔۔ وہ چیتے کا جگر اور شاہین کا تجسس رکھتے تھے محبت ان کا کردار تھا عادت نہ تھی وہ پہلے بھی جگر کے عارضے کا کار ہوئے اور اب دوسری بار تو ان کے جگر نے خون بنانا چھوڑ دیا تھا۔ انفیکیشن سرایت کر گیا تھا اور ایک حساس ‘ غریب پرور‘ ہمدرد انسان جو شجر سایہ دار تھا کی زندگی کا سورج شام ڈھلنے سے پہلے ہی غروب ہو چکا تھا کہ موت برحق ہے بقول حضرت علامہ اقبالؒ …؎
کلبۂ افلاس میں دولت کے کاشانے میں موت
دشت و در میں شہر میں گلشن میں ویرانے میں موت
موت ہے ہنگامہ آراء قلزم خاموش ہیں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں

سلطان سکندر

سلطان سکندر

epaper

ای پیپر-دی نیشن