دل دی لکیر کڈ لے
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب اڈیالہ جیل میں آصف علی زرداری مقید تھے۔ اُنکے ساتھ والی حفاظتی کوٹھڑی میں مشہور زمانہ تاجی کھوکھر اور راجہ پرویز اشرف دہشت گردی کے کیس میں پابند سلاسل تھے۔ اسی دوران مجھے بھی آصف علی زرداری اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے کیسوں میں پیروی کرنے کی پاداش میں بے پناہ جعلی کیس بنا کر اڈیالہ جیل لایا گیا۔ میرے آنے کی خبر آصف علی زرداری صاحب کوتھی، لہٰذا جیسے ہی میں جیل کے اندر داخل ہوا سامنے راجہ پرویز اشرف اور تاجی کھوکھر میرے استقبال کیلئے پہلے سے موجود تھے۔ مجھے سیدھا زرداری صاحب کے پاس پہنچایا گیا جہاں میں عارضی ضمانت ہونے تک انکے ساتھ رہا۔ جیل میں تاجی کھوکھر اور راجہ صاحب کی وجہ سے کافی سہولیات تھیں۔ خود آصف علی زرداری میری ذاتی ضروریات کا خیال رکھتے اور میری تاریخ سے دل چسپی کی وجہ سے تاریخ ایران جیسی کتب مطالعہ کیلئے دی جاتیں۔مجھے اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ آصف علی زرداری صاحب نے جیل میں میری کافی سیاسی تربیت کی اور جب بھی میری ضمانت منسوخی کی اطلاع ملتی تو وہ مجھے حوصلہ دیتے۔ میرے وکیل بابر اعوان صاحب کو زرداری صاحب نے کہہ رکھا تھا کہ منسوخی ضمانت کی اطلاع وہ مجھے ڈائریکٹ نہ سنایا کرے بلکہ یہ فریضہ زرداری صاحب مجھے سامنے بٹھا کر ادا کرتے۔ قارئین! جیل کے ایام اور شب و روز مجھے آج اس لیے یاد آئے کہ گذشتہ کئی روز سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر یہ خبر بڑے تسلسل کے ساتھ چل رہی ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف اور انکے دیگر کاروباری و سیاسی رفقاء کی اڈیالہ جیل آمد کی خبریں گشت کر رہی ہیں اور یہ بھی کہ اڈیالہ جیل میں صفائی اور دیگر انتظامات کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ تو قارئین! اس میں ڈرنے گھبرانے اور دل چھوٹا کرنے والی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ میاں صاحب کی کوئی پہلی جیل یاترا نہیں ہو گی اس سے پہلے بھی موصوف کوٹ لکھپت لاہور، لانڈھی جیل کراچی، اور اٹک قلعہ جیل سمیت متعدد پرتعیش اور خوفناک دونوں قسم کی جیلوں کی سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ میں چشمِ تصور سے یہ دیکھ رہا ہوں کہ اڈیالہ جیل کی کونسی کوٹھڑیاں اور سیل ہیں جن کی صفائی اور رنگ و روغن کا کام اس مقصد کیلئے کروایا گیا ہے۔ یقیناً پاناما کیس کے مجرموں کو دنیا کی سب سے زیادہ پرتعیش جیل میں جیسے کہ لگسمبرگ، سویڈن، ناروے اور جرمنی میں ہیں وہ تو میسر نہ ہوں گی مگر مجھے امید ہے کہ وہ مافیا اور گاڈ فادر جو بیوروکریسی، اسٹیبلشمنٹ، جوڈیشری اور سیاست دانوں کو خریدنے کی سکت رکھتے ہیں ان کیلئے جیل کے اندر سی کلاس کوبی اور اے سے بدلنے کے ہنر تو یقینا آتے ہونگے۔ ایک دفعہ جیل میں آصف علی زرداری صاحب نے میرے ہاتھ پر روپوں کا بنڈل تھما دیا میں نے پوچھا یہ کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگے یہ وہ چیز ہے جس کی تمہیں سب سے زیادہ ضرورت جیل کے اندر پڑے گی اور یہ پیسہ تیرا جیل کے اندر بہترین ساتھی ثابت ہوگا۔ دیکھتے ہیں کہ اب پیسے کیلئے عزت اور آخرت قربان کرنیوالے اسی پیسے سے اپنی بگڑی ساکھ اور عزت کو کیسے بچاتے ہیں۔قارئین! جھورا جہاز آج میرے پاس یہ بڑبڑاتا ہوا اندر داخل ہوا کہ اداکارہ میرا اور چوہدری نثار ایک جیسی عادات کے مالک ہیں۔ میں نے پوچھا وہ کیسے؟ تو وہ بولا کہ وڑائچ صاحب میرا اور چوہدری نثار دونوں کو میڈیا میں نمایاں رہنے کا فن آتا ہے۔
قارئین! اتوار کوچوہدری نثار صاحب نے ایک ایسی پریس کانفرنس کرنی تھی جس کیلئے وہ بکنگ تین روز پہلے کروا چکے تھے مگر عین اس موقع پر وزیر داخلہ کو کمر کی ہڈی کی تکلیف بڑھ گئی۔ خیر درد کا نکل آنا یا بیمار ہو جانا تو ایک امر ربی ہے مگر ہمارے تقریباً سارے ہی محبوب سیاسی، سماجی اور عسکری رہنما عین اس وقت کسی موذی مرض کا شکار کیوں ہو جاتے ہیں جب انکی ضمانت کینسل ہو جاتی ہے اور انہیں سامنے ہتھکڑی لہراتی نظر آتی ہے۔ میرے سامنے محترم آصف علی زرداری صاحب جو گیارہ سالہ جیل یاترا کے دوران کم از کم دس سال جیل کے ہسپتالوں یا پھر پرائیویٹ قیمتی ہسپتالوں میں زیر علاج رہے، اسی طرح ڈاکٹر عاصم حسین اور میاں برادران کی بھی مثالیں ہیں اور کل جیسے ہی عدالت نے ظفر حجازی صاحب کی ضمانت کینسل کی موصوف کو ایکدم موقع پر ہی چار پانچ بیماریوں کے سرٹیفکیٹس مل گئے۔ میری اربابِ اختیار سے استدعا ہے کہ علاج کے نام پر قانون سے کھلواڑ جیسی شعبدہ بازی آخر کب ختم ہو گی؟ اور اگر ہمارے حکمران ملک کے اندر ہی اپنے ہسپتالوں کی حالتِ زار بہتر کر لیتے تو آج انہیں معمولی سے معمولی چیک اپ کیلئے بھی لندن جانے کی درخواستیں نہ کرنا پڑتیں۔
قارئین ایک طرف تو ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے دوسری طرف موجودہ حکمران خانوادے کے اقتدار میں آنے سے قبل ہر پاکستانی اوسطاً 74 ہزار روپے کا عالمی مقروض تھا مگر ہمارے مایہ ناز ذہین و فطین وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار صاحب کے وزارت کا قلم دان سنبھالتے ہی ماشاء اللہ ہر پاکستانی صرف چار سالوں میں ایک لاکھ پچیس ہزار روپے کا مقروض ہو چکا ہے ۔ پہلے زمانے میں لوگ سنایاکرتے تھے کہ خزانے پر سانپ بیٹھا ہوتا تھا اب صدائیں لگ رہی ہیں کہ خزانے پہ اسحاق ڈار صاحب بیٹھے ہیں۔ وزیرخزانہ کی چکربازیوں اور الفاظ کے ہیر پھیر پر جھورا جہاز مجھے مشہور شاعر ظفر اقبال صاحب کا یہ شعر سنانے لگا۔
جھوٹ بولنا ہے تو اس پہ قائم بھی ہو ظفرؔ
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
قارئین! پندرہ ماہ کی مسلسل سماعت، ذہنی ٹینشن اور بائیس کروڑ عوام کو نفسیاتی مریض بنا کر ملک کی حکمران اشرافیہ ابھی تک یہ اخلاقی جرأت پیدا نہیں کر سکی کہ وہ قائدعوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی طرح اپنے عوام میں جا کر یہ کہہ دیں کہ ہاں ’’تھوڑی سی پی ہے‘‘ ڈاکہ تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے۔ گذشتہ روز ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کیا خوب کہا تھا کہ کعبہ کس منہ سے جائو کے غالب۔ تو محترم وزیراعظم سے میری دست بدستہ عرض ہے کہ آپ نے صرف گذشتہ چار سال کے دوران سو سے زائد غیرملکی دورے کیے، درجنوں دفعہ عمرے کی سعادت بھی حاصل کی اور ایک دفعہ تو تقریباً دو ماہ کی غیر اعلانیہ چھٹی پر لندن چلے گئے مگر وزیراعظم صاحب اب آپکے عرب سربراہان مملکت جو کبھی آپکے دوست تھے اب آپکے دوست اور سفارشی نہیں رہے۔ ترکوں اور طیب اردگان کے متعلق سن لیں کہ ترک عوام پاکستان کی دوست ہے شریف فیملی کی نہیں۔ لے دیکر ایک قطر ہے جو کسی دن سیف الرحمن کو ٹھڈے مار کر ملک بدر کر دیگا۔ بہتر یہی ہے کہ آپکے سینے میں جو راز ہیں وہ قومی اثاثے ہیں ان رازوں کو افشا کرنے کی دھمکی دیکر خدارا غداروں کی لسٹ میں اپنا نام مت لکھوایئے اور جگہ جگہ ماتھا ٹیکنے اور ناک رگڑنے سے فقط رسوائی حاصل ہو گی۔ مجھے یہاں مشہور پنجابی فلم ’’بشیرا‘‘ میں مسعود رانا کا گایا ہوا یہ صوفیانہ کلام یاد آ رہا ہے ’’کاہنوں کڈھنا ایں نک نال لکیراں۔ توں دل دی لکیر کڈھ لے‘‘میاں صاحب اپنے اللہ سے، اپنے عوام سے باجماعت بمعہ رفقاء معافی مانگیں قومی خزانے کی پائی پائی واپس لائیں اور جو دوسروں نے بھی لوٹی ہیں انکی نشاندہی فرمائیں یقینا میرا اور آپ کا رب بخشنے والا ہے۔