دنیائے صحافت کی عظیم شخصیت
مکرمی! معمار نوائے وقت جناب ڈاکٹر مجید نظامی ہم میں نہیں رہے لیکن وہ ہمارے سب کے دلوں میں ہمیشہ کیلئے زندہ رہیں گے۔ انکی یادیں، انکی کمٹ منٹ، معصوم بچوں کیلئے شفقت، ادیبوں دانشوروں کیلئے پیار اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے ان کا نکتہ نظر سب کے سامنے ایک حقیقت کی طرح ہے۔ڈاکٹر مجید نظامی تین اپریل 1928ء میں پیدا ہوئے ۔ آپ تقریباً عرصہ پچاس سال تک صحافت کی دنیا سے منسلک رہے۔ بانی نوائے وقت جناب حمید نظامی کے بعد آزادی پاکستان میں مجید نظامی کے کردار کو سراہتے ہوئے حکومت پاکستان نے ان کو مجاہد تحریک پاکستان کے ایوارڈ سے بھی نوازا۔ وہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے پرزور حامی تھے لیکن وہ ہندوستان کو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن تصور کرتے تھے۔ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کو پاکستانی صحافت میں دائیں بازو کا سرخیل مانا جاتا ہے۔مجید نظامی زندگی بھر پاکستان کے بے لگام حکمرانوں کیلئے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔ مدیر نوائے وقت طور پر مجید نظامی کی پہلی مڈبھیڑ جنرل ایوب خان سے ہوئی۔ ایک رسمی ملاقات میں مدیران جرائد سے ایوب خان کہنے لگے ’’ آپ ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر تو دیکھیں ‘‘ اس پر مجید نظامی غصے سے اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا حضور! شرم کس بات کی میں جب بھی اپنے گریبان میں منہ ڈالتا ہوں تو میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔بقول:…؎
انہیں تم جھانکنے کا مشورہ تو دو
گریبان تک وہ آنا بھول جائے گا
اس کے بعد جنرل یحیٰی خان کا دور آتا ہے جنرل یحیٰی خان نے پاکستان میں مارشل لا لگایا یعنی فوجی حکومت کا راج ہوا۔ اس وقت بھی ڈاکٹر مجید نظامی ایک چٹان کی طرح حالات واقعات کا مقابلہ ڈٹ کر کرتے رہے لیکن پاکستان جیسی سوہنی دھرتی پر آنچ تک نہ آنے دی۔ ڈاکٹر مجید نظامی نے پاکستان اور نوائے وقت کیلئے بہت ساری قربانیاں دیں۔ ڈاکٹر مجید نظامی نہ صرف روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر تھے بلکہ دنیائے صحافت کے امام بھی ہیں۔ آپ نے 88 برس کی عمر پائی۔ آپکی زیرادارات روزنامہ نوائے وقت، ہفتہ روزہ فیملی، ندائے ملت، ڈیلی دی نیشن اور ماہنامہ پھول شائع ہوا۔ اسکے علاوہ نشریاتی ادارہ وقت نیوز بھی شامل ہے۔ جو آج بھی ایک ادارے کی طرح کام کر رہے ہیں۔ڈاکٹر مجید نظامی میڈیا پر سنز کی استعدادکار میں اضافے کیلئے قائم شدہ انتہائی معتبر ادارے حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ کے بانی چیئرمین تھے جسے انکی رہنمائی اور نگرانی میں ممتاز دانشور، ادیب اور براڈکابٹر ابصار عبدالعلی گزشتہ چودہ برسوں سے چلا رہے ہیں۔ اب اس ادارے کے چیئرپرسن رمیزہ مجید نظامی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ کو صحافی حلقوں میں بڑا اعتبار حاصل ہے۔ اسکے علاوہ نوجوانوں کے دلوں میں نظریہ پاکستان کو زندہ رکھنے کیلئے انہوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ قائم کیا جس کے وہ بانی و چیئر مین تھے۔ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کو انکی زیرک سربراہی کا اعزاز انکی وفات تک حاصل رہا۔ ڈاکٹر مجید نظامی بڑوں سے ہی نہیں بلکہ بچوں سے بھی شفقت فرماتے تھے۔آپ کا چہرہ مسکراتا ہوا اور دھیمی آواز تھی۔ آپکی باتوں میں ایک جادو تھا جو بھی سن لیتا وہ آپ کا شیدائی ہو جاتا۔پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ بہت کم بولتے تھے آپ دوسروں کی باتیں سنتے تھے اور اپنی بات آخر میں کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ نے فرمایا ’’ یہ نوجوان کا دور ہے۔ یہ میرا زمانہ نہیں ہم اپنا وقت گزار چکے، اب جوانوں کے ہاتھوں میں ملک کی تقدیر ہے اور وہی ہونگے فروغ بزم امکان۔ ‘‘ پھر یہ کیا حسن اتفاق ہے کہ آج نوجوانوں کے دور میں نوائے وقت اپنے ماضی کے ساتھ نوجوانوں کے کندھوں پرہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجید نظامی کی تربیت کی مہلت بخشی۔ اب نوائے وقت گروپ کا جراتوں کا سفر ان کی مدارت میں جاری ہے اور پاکستان کے سیاسی مطلع کو آلودگی سے بچانے کا عمل بھی۔مجید نظامی 26 جولائی 2014 ء کو رمضان المبارک کے تیسرے عشرے کی 27 روزے کی مبارک رات کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ جنہیں یاد کر کے دل آج بھی لہو کے آنسو روتا ہے۔ میری تر دعائیں ایڈیٹر نوائے وقت رمیزہ نظامی کیلئے ہیں۔ خدا میری پیاری بہن کو بابائے قوم قائداعظم ، حمید نظامی اور اپنے والد محترم مجید نظامی کے نقشے قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) (صدام ساگر۔ لاہور)