• news
  • image

لاہور دھماکا: برملا حقائق و شواہد

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امریکی فورسز کے کمانڈر جنرل جان ڈبلیو نکلسن سے جی ایچ کیو میں ملاقات کے دوران جو گہری باتیں کیں‘ انکی غرض و غایت اور وجوہات میں جھانک کر دیکھیں تو حقیقی منظرنامہ شفاف نظر آتا ہے۔ جنرل باجوہ نے امریکی کمانڈر سے برملا کہا امریکہ اور افغانستان میں بعض عناصر کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشیاں اور دشنام طرازی بہت معنی خیز اور مذموم حرکتیں ہیں۔ جن کا مقصد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا واضح اور دوررس کردار مسخ کرنا ہے۔ جنرل باجوہ نے اس امر کی نشاندہی بھی یقیناً درست سمت میں کی اور کہا یہ الزام تراشیاں عین اس وقت کی جا رہی ہیں جب امریکہ پاکستان بارے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کر رہا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے امریکہ اور افغانستان میں الزام تراشیاں کرنے والوں کی پشت پر کون سی لابی ’’موثر‘‘ طریقے سے پاکستان دشمنی کا کھیل کھیل رہی ہے؟ یقیناً یہ بھارتی لابی ہی کی کارستانی ہے‘ جس کا دنیا میں صرف ایک ہی کام ہے‘ پاکستان کی سالمیت اور مفادات کو نقصان پہنچانا۔ پاکستانی قوم بہت بھولی اور معصوم ہے جو ہر تخریبی کام کی ذمہ داری طالبان کی جانب سے قبول کرنے پر مطمئن ہو جاتی ہے اور اپنے ازلی و ابدی دشمن متعصب ہندو کو یکسر بھول کر مغالطے کا شکار ہو جاتی ہے۔ اب ذرا دو دلخراش خبریں دیکھئے‘ لاہور خودکش دھماکہ: دو درجن سے زائد افراد ہلاک‘ ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی۔ کابل خودکش دھماکہ: تین درجن سے زائد افراد جاں بحق‘ ذمہ داری طالبان نے قبول کر لی۔ بادی النظر میں یہ خبریں واضح اور غیر مبہم لگتی ہیں لیکن گہرائی میں جا کر حقائق چھان کر دیکھیں تو انکے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کا مکروہ چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ یہی نہیں دہشت گردی کی ان مذموم کارروائیوں میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے بھی ’’مسکراتی‘‘ نظر آتی ہے‘ جو سو فیصد بھارتی کارروائیوں اور اقدامات کو اشیرباد دینے کی مذموم پالیسی پر گامزن ہے۔ پھر امریکہ اور افغانستان میں پاکستان مخالف پراپیگنڈہ اور الزام تراشیوں کو مدنظر رکھیں تو ٹائم فریم سے بھی یہ حقیقت پایہ ثبوت تک پہنچ جاتی ہے کہ اندرون خانہ بھارتی لابی اور خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ہی اپنا کام دکھا رہی ہے‘ کیونکہ بھارتی ریشہ دوانیوں کا جو سلسلہ سالہاسال سے پاکستان کیخلاف جاری ہے‘ اس کے ہر مرحلے پر ٹائم فریم بہت اہم اور معنی خیز ہوتا ہے۔ امریکہ پاکستان کیخلاف اپنے مخصوم عزائم کے تحت حلقہ تنگ کرنا چاہتا ہے اور ایک ایسا حصار قائم کرنے کے درپے ہے‘ جسکے نتیجے میں پاکستان اور اس کے عوام و حکمران امریکہ اور بھارت کو ہر معاملے میں ’’چودھری‘‘ تسلیم کر لیں اور پاکستان چین کی دوستی اور اسکے ساتھ معاہدات سے ہاتھ کھینچ لے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر امریکہ نے سعودی عرب کو کامیابی کے ساتھ اپنے عزائم کیلئے استعمال کیا۔ اس امریکی حکمت عملی سے جہاں پاکستان کیلئے عالمی سطح پر اخلاقی و سیاسی مشکلات پیدا ہوئیں‘ وہاں خطے میں دوستیوں اور باہمی تعاون کا توازن بھی درہم برہم ہو گیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے دورہ سعودی عرب کے موقع پر وزیراعظم نواز شریف کو طلب کیا اور انہیں وہاں بلا کر بظاہر بے توقیر کرنے کی کوشش بھی کی۔ امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا ہی شاخسانہ تھا کہ امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم مودی نے بھی نہ صرف سعودی عرب یاترا کی بلکہ اپنے دیرینہ مربی اسرائیل کا بھی دورہ کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور بھارت پاکستان دشمنی کے تحت ایک ایسی وکٹ پر سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں‘ جسکے نتائج وہ مشترکہ مفادات کے تحت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان دونوں کے ساتھ اسرائیل بھی اس کام میں ہم نوالہ و ہم پیالہ ہے۔
بدقسمتی سے پاکستانی عوام‘ سیاسی جماعتوں اور حکومت کو بین الاقوامی تناظر میں وہ حقائق نظر نہیں آ رہے جو ہماری فوج اپنی عمیق اور دوررس نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ لاہور کے دلخراش خودکش دھماکہ کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے ذمہ داری قبول کی تو ہم نے بھی من و عن تسلیم کر لیا کہ حقیقت یہی ہو گی‘ جبکہ حقائق و شواہد کچھ اور ہیں اور اس حوالے سے انکشافات بھی بہت سنسنی خیز ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم اپنے ازلی دشمن کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں؟ کیا یہ ہماری سائیکی میں ’’دوستی‘‘ کی سطح پر موجود ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ ہماری بھول اور مجرمانہ غفلت ہے۔ بھارت دراصل پاکستان مخالفت اور اسلام دشمنی میں گندھی ہوئی ایک ریاست ہے‘ ایک ایسا ملک جو دنیا بھر کے مسلمانوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچانا چاہتا ہے۔ اونٹ کا کینہ اسکی سرشت میں ہے۔ وہ پاکستانی قوم سے سومنات اور پانی پت کی تیسری لڑائی کے لگے ہوئے زخموں کا بدلہ چکانا چاہتا ہے۔ متعصب ہندو کو مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے‘ بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کا قتل عام ہندو کی اسی سائیکی کا شاخسانہ ہے۔ اسکی شروع دن سے حکمت عملی رہی کہ پاکستان اور اسکے عوام کے کھلے دشمنوں کے ساتھ راہ و رسم بڑھا کر رکھے۔ افغان طالبان ہوں یا پاکستانی طالبان وہ ان ہر دو پاکستان دشمن تنظیموں کا پشتبان ہے اور دامے‘ درمے‘ قدمے‘ سخنے ان کی اعانت کر رہا ہے۔ مقصد پاکستان کو ہر قسم کا نقصان پہنچانا ہے۔ مسلمانوں کی صفوں میں غدار شروع سے پیدا ہوتے ہی آئے ہیں‘ جو بھارتی سازشیوں کیلئے میرجعفر اور میر صادق کا درجہ رکھتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کیا چیز ہے؟یہ تو ریمورٹ کنٹرول لوگ ہیں جب تک انہیں فنانس کرنیوالے سہولت کار نہ ملیں، یہ کام ہی نہیں کر سکتے۔انکے منفی عزائم میں دیگر سازشی عناصر کی اشیرباد بہت ناگزیر ہے۔ان پر نظر رکھنے والے سکیورٹی اداروں کو بخوبی علم ہے کرائے کے یہ ٹٹو خود کش بمبار تک مہیا کرتے ہیں لیکن وسائل کوئی اور مہیا کرتا ہے۔ اس لئے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے پاکستان کے اندر جہاں جہاں خودکش دھماکے کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی اسکے پیچھے ’’را‘‘ کا خفیہ ہاتھ ہوتا ہے۔پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو یہ حقیقت مدنظر رکھنی چاہئے کہ اس وقت بھی بہت سے کلبھوشن اپنے جملہ منفی عزائم کے ساتھ مختلف جگہوں پر بلوں کے اندر گھس کر بیٹھے ہوئے ہیں‘ جو ہر اس قوت اور جماعت کی اعانت کر رہے ہیں، جو پاکستان کو عملی طور پر نقصان پہنچانے کے مقاصد پر عمل پیرا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے ابتر سیاسی حالات کے پیش نظر ہی ایسی منفی قوتیں سر اٹھاتی ہیں، انہیں موقع صرف اسی صورت ملتا ہے، جب ملک میں افراتفری ہو، انتشار نہیں تو کم از کم ارباب اقتدار میں عدم توجہی کی صورت حالات ہو۔ اب اس ملک کے سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں سمیت حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ انہیں ہزار سیاسی اختلافات کے باوجود باہمی اتحاد اور یگانگت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کیونکہ سب کا ازلی دشمن اور ملک کے وجود کا مخالف مشترکہ ہے، لیکن یہاں تو یہ حال ہے انتخابی ترامیم کی سفارشات کے بل کی تیاری میں دو کلیدی جماعتوں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے سرے سے حصہ ہی نہیں لیا اور مذکورہ معاملہ بھی نواز شریف کی سیاسی مخالفت کی نذر کر دیا۔ یہ باتیں ہوش مندی کی نہیں، غفلت اور عدم توجہی کی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو یہ حقیقت پلے باندھ لینی چاہیے کہ ان کی ساری شان و شوکت اور شکوہ اس ملک کے ساتھ ہی قائم و دائم ہے، اس لئے پاکستان کی سالمیت اور بقاء ہر معاملے پر مقدم ہے، ازلی دشمن بھارت کو عقابی نظروں سے مانیٹر کرنا صرف فوج ہی کی نہیں، پوری پاکستانی قوم کی ذمہ داری ہے۔ اس کام میں غفلت بھی اچھے نتائج نہ لا سکے گی۔

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی

epaper

ای پیپر-دی نیشن