بھارتی ’’اشتعال انگیزی‘‘ اور ہمارا داخلی انتشار
امریکی ایوان نمائندگان نے 15جولائی 2017ء کو پاکستان کی دفاعی امداد کو انتہائی سخت قسم کی شرائط کے ساتھ مشروط کر دیا جس میں بھارت سے تعلقات بڑھانے کی مضحکہ خیز شرط بھی شامل تھی۔ مذکورہ بل میں شامل کی گئی شرائط اور اس کیلئے الفاظ کے چناؤ سے لگتا تھا کہ امریکہ نے یہ ساری کارروائی بھارت کو خوش کرنے کیلئے کی ہے۔ قبل ازیں امریکہ‘ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی واشنگٹن میں موجودگی کے دوران مقبوضہ کشمیر میں ہردلعزیز اور حزب المجاہدین کے چیئرمین سید صلاح الدین پر پابندیاں عائد کر چکا تھا یہ سارے اقدامات پاکستان کیخلاف بھارت کو شہ دینے کیلئے کافی تھے اسی امریکی ہلہ شیری ہی کا نتیجہ ہے کہ 16 جولائی 2017ء کو وادی نیلم میں بھارتی فوج نے پاک فوج کے جوانوں کی جیپ کو نشانہ بنایا پاک فوج کے جوان لائن آف کنٹرول سے پہلے آزاد کشمیر میں اپنے علاقے کی حفاظت کے فرائض پر مامور تھے۔ وادی نیلم میں بھارتی فوجیوں نے دریائے نیلم کے کنارے رواں پاکستانی فوج کی جیپ پر اچانک اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جسکے نتیجے میں جیپ بے قابو ہو کر دریائے نیلم میں جاگری‘ جیپ میں سوار چاروں پاکستانی جوان دریا کی تیز لہروں میں بہہ کرشہید ہو گئے۔ فوج میں موت وہ بھی ملک کی سلامتی اور تحفظ کے دوران وردی میں سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے وطن کے ہر سپاہی کیلئے اعزاز کی بات ضرور ہے لیکن لائن آف کنٹرول کی صورتحال مختلف ہے۔ دہشتگردی کیخلاف ملک کے اندر داخلی جنگ سے ہٹ کر لائن آف کنٹرول پرمسئلہ یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ یہاں فائر بندی کا باقاعدہ معاہدہ کر رکھا ہے گزشتہ چند برسوں سے بھارت مسلسل اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا چلا آرہا ہے وہ کبھی اس میں کمی کرتا ہے تو کبھی شدت لے آتا ہے اس کا ہدف آزاد کشمیر کی سول آبادی‘ کھیتی باڑی کرنیوالے کسان‘ انکے ڈھور ڈنگر اور املاک رہے ہیں‘ گزشتہ تین برسوں کی تفصیلات اکٹھی کریں تو بھارت کی طرف سے فائر کئے گئے ماٹر گولوں اور دور مار خودکار ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے 150 سے زیادہ بے گناہ پاکستانی شہید کئے جا چکے ہیں۔ بے شمار گھر زمین بوس ہوئے کسانوں کیلئے قیمتی اثاثہ کی حیثیت رکھنے والے جانور الگ سے نشانہ بنے ہزاروں لوگ گھروں سے نقل مکانی کر کے سکولوں میں قائم کئے گئے کیمپوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہوئے بھارتی فوج کی طرف سے کمینگی اور اخلاقی گراوٹ کی انتہا یہ ہے کہ وہ آزاد کشمیر پر بلااشتعال فائرنگ کے دوران سکول جانیوالے بچوں کو بھی نہیں بخشتا۔
16 دسمبر 2016ء کو بھارتی فوج کی طرف سے فائر کئے گئے مارٹر گولے کی زد میں آ کر آزاد کشمیر کے کوٹلی ڈسٹرکٹ میں نکیال سیکٹر کے مقام پر بچوں کی ویگن تباہ ہو گئی۔ سکول وین کا ڈرائیور موقع پر ہی شہید ہو گیا۔ وین میں 20 بچے سوار تھے جن میں سے 10 زخمی ہوگئے ایسا نہیں کہ سکول وین اچانک مارٹر شیل کی زد میں آگئی تھی یا اس وقت بھارت کی طرف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری تھا بلکہ بھارتی فوج نے جانتے بوجھتے بچوں کی سکول وین کو نشانہ بنایا۔ اس سے تین ہفتے قبل بھارتی فوج نے آزاد کشمیر میں لوات کے مقام پر نشانہ لے کر اندھا دھند فائرنگ کے ذریعے مسافر بس کو نشانہ بنایا تھا جسکے نتیجے میں مسافر بس کے دس مسافر موقع پر ہی شہید ہو گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد گیارہ تھی‘ مسافر بس سے جس وقت زخمیوں اور شہید ہونے والوں کی لاشوں کو نکالا جا رہا تھا تو اس وقت بھی بھارت کی طرف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا گو پاک فوج نے بھارتی فوج کیخلاف جوابی فائرنگ کی اس کے باوجود بھارت کی طرف سے دوسرے روز ایک ایمبولینس کو نشانہ بنایا گیا جس میں 2 بے گناہ زخمی شہری شہید ہو گئے ان جھڑپوں میں پاک فوج کے تین جوانوں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ ایمبولینس پر بھارتی فوج کے حملے کیخلاف جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کی بیوی مشعال ملک کی قیادت میں پیرامیڈیکل سٹاف نے 28 نومبر 2016ء کو مظفر آباد (آزاد کشمیر) میں پریس کلب کے سامنے بھی احتجاج کیا بعدازاں احتجاجی ریلی مظفر آباد میں اقوام متحدہ کی طرف سے تعینات فوجی مبصرین کے دفتر پہنچی جہاں بھارت کیخلاف بلااشتعال انگیز فائرنگ سول آبادی کو نشانہ بنانے کے علاوہ ایمبولینسوں پر حملہ کیخلاف احتجاجی مراسلہ پیش کیا اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ بھارت کی اس بربریت کا نوٹس لیکر جنیوا کنونشن کیمطابق بھارت کیخلاف کارروائی کرے کہ جسکے مطابق دوران جنگ بھی ایمبولینسوں کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں تو کیا بھارت پر یہ قوانین لاگو نہیں ہوتے؟
بھارت نے پاکستان کے ساتھ ہمسائیگی کو مذاق بنا لیا ہے افغانستان کے راستے پاکستان میں مداخلت کے راستے بند ہونے کے بعد اب اس نے ایک طرف مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اپنے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئے ہیں مختلف اضلاع میں کرفیو لگایا جا چکا ہے‘ اسکے باوجود کشمیریوں کا بھارتی قبضے کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف اس نے لائن آف کنٹرول پر سول آبادی کو نشانہ بنانے کے ساتھ ہی پاکستان کے فوجی جوانوں کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی بڑی شرارت کے موڈ میں ہے۔ فی الحال پاک فوج بھارتی چوکیوں پر بھرپور جوابی کارروائی کے علاوہ انتہائی صبر و تحمل سے صورتحال کو سنبھالنے کی کوشش میں ہے لیکن یہ طریقہ کارگر نہ ہونے کی صورت میں پاک فوج مستقل بنیادوں پر بھارت کو منہ توڑ جواب دینے پر مجبور ہو جائیگی اب بھی بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان کی طرف سے بھارتی چوکیوں کو نشانہ بنائے جانے کی بدولت بھارت کو اچھا خاصا جانی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جیسے بھارتی میڈیا اور عوام سے پوشیدہ رکھنا بھارتی فوج اور نیو دہلی کی سیاسی ضرورت ہے علاوہ ازیں بھارتی جارجیت کے جواب میں جب کبھی بھارتی فوج کو تحاشہ نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو بھارتی فوج کا ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز پاک فوج میں اپنے ہم منصب سے ہاٹ لائن پر منتوں پر اتر آتا ہے کہ پاک فوج انہیں اپنے زخمیوں اور مارے گئے فوجیوں کی لاشیں اٹھانے دے اسکے ساتھ ہی اپنے میڈیا کو بھارتی فوج تاثر دینے کی کوشش کرتی ہے کہ بلااشتعال فائرنگ کی پہل پاک فوج کرتی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں سول آبادی کو نشانہ بناتی ہے۔ گزشتہ جمعرات مورخہ 20 جولائی کو بھی بھارت فوج کی درخواست پر جب پاک فوج کے ڈی جی ایم او نے ہاٹ لائن پر بھارتی ہم منصب کی ٹیلی فون کال وصول کی تو نیو دہلی میں بھارتی وزارت دفاع کی طرف سے پاک فوج پر لگائے گئے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے لیفٹیننٹ اے کے بھٹ کو باور کرایا گیاکہ لائن آف کنٹرول کے آر پار دونوں اطراف کشمیری آباد ہیں تو پاک فوج کس طرح اپنے کشمیری بھائیوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔ پاک فوج کے ڈی جی ایم او میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے واضح کیا کہ پاک فوج سول آبادی کو نشانہ بنانا پیشہ ورانہ عسکری تربیت کی حامل پاک فوج کیلئے باعث توہین سمجھتی ہے اور بھارتی جارحیت کے جواب میں ہر قیمت پر اپنے عوام کے تحفظ اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کا بھرپور عزم رکھتی ہے لیکن نہتے عوام پر گولیاں چلانے کی عادی بھارتی فوج کو شاید اصولوں یا پیشہ ورانہ اقدار کی سمجھ نہیںآئیگی کیونکہ انہیں مقبوضہ کشمیر ہو‘ آسام و جھاڑ کھنڈ جیسی ریاستیں یا بھارت میںبسنے والی اقلیتیں بھارتی فوج کو تربیت ہی غیر مسلح معصوم عام لوگوں پر گولیاں برسانے کی دی جاتی ہے تاہم یہ بھی المیہ ہے کہ لائن آف کنٹرول پر بھارتی اشتعال انگزیوں پر ہمارا حکومتی ردعمل مسلسل بے عملی کا شکار ہے وزارت خارجہ میں بھارتی سفیر کو بلا کر احتجاجی مراسلہ تھمانے کا سلسلہ مذاق بن چکا ہے۔ کشمیر کمیٹی موجود ہے لیکن نام کی‘ نہ اسکی طرف سے کوئی احتجاجی بیان سامنے آتا ہے نہ ہی اسکی طرف سے کبھی کوئی اجلاس بلائے جانے کی خبر سامنے آئی ہے بادی النظر میںہوں لگتا ہے کہ جیسے مسئلہ کشمیر ہو یا بھارتی فوج کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر کی جانے والی فائرنگ ‘ اسے محض پاک فوج کا مسئلہ سمجھ کر حکومت ہو یا ہماری سیاسی اشرافیہ سب نے خود کو اس مسئلے سے فاصلے پر رکھا ہوا ہے حالانکہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء اسی ایک مسئلہ کے ساتھ منسلک ہے۔ ہم ابھی تک دنیا کو احساس دلانے میں ناکام رہے ہیں کہ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی طرف سے جاری اشتعال انگیزی کی بڑی جنگ کا سبب بن کر ایٹمی جنگ کی شکل بھی اختیار کر سکتی ہے اور یہ کام ہمارے حکمرانوں کے کرنے کا ہے جو باہمی سیاسی انتشار سے باہر ہی نہیں نکل پا رہے۔