وزیراعظم اہل یا نااہل: پانامہ کیس‘ 5 رکنی بنچ آج صبح ساڑھے 11 بجے فیصلہ سنائے گا
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت + اپنے سپاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامہ کیس سے متعلق فیصلہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ آج بروز جمعہ11بجکر30 منٹ پرسنائے گا۔ 10جولائی کو جے آئی ٹی کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد کیس کی پانچ روز تک مسلسل سماعت کے بعد تین رکنی عمل درآمد خصوصی بنچ نے 21جولائی کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ فیصلہ سنانے والے دیگر ججز میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن شامل ہیں۔ کیس کا فیصلہ کورٹ روم نمبر تین میں بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ سنائیں گے۔ آئینی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ پاکستان کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کرے گا جس کے منفی یا مثبت اثرات لمبے عرصہ تک اور دور تک جائیں گے۔ قانون دانوں نے سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کے محفوظ کئے جانے والے فیصلے کے حوالے سے امکان ظاہر کیا ہے کہ کیس مزید تحقیقات و ٹرائل کے لئے نیب کو ریفر کردیا جائیگا، عدالت عظمیٰ سے وزیراعظم کو ناکافی شواہد کی بنا پر نااہل قرار نہیں دیا جائے گا، سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں، سیاسی کیس کا فیصلہ جو بھی آئے ملک میں انارکی کا شدید خطرہ موجود ہے، فیصلہ ملکی تاریخ پر اثر انداز ہوگا جبکہ فیصلہ کا اثر بین الاقوامی سطح تک جائے گا، جبکہ بعض وکلاء کے مطابق وزیراعظم کی نااہلی کا فیصلہ یقینی ہے اگر وزیراعظم نااہل نہ ہوئے تو وکلاء سمیت عوام سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوں گے، شریف خاندان بیرون ملک جائیدادوں اور کاروبار کی منی ٹریل پیش کرنے میں ناکام رہا جس کے بعد مزید تحقیقات یا ٹرائل کی ضرورت نہیں۔ واضح رہے بین الاقوامی صحافتی تنظیم انٹر نیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیٹیو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) نے پانامہ میں لوگوں کی خفیہ دولت کے حوالے سے 2016ء میں انکشاف کیا، اس حوالے سے پانامہ پیپرز لیکس کیئے گئے اور پانامہ لیکس کو ایک ایسی انڈسٹری قرار دیا جہاں لوگوں نے اپنی خفیہ دولت آف شورز کمپنیوں کی صورت میں چھپا رکھی ہے، اس حوالے سے ہونے والے انکشافات کے نتیجہ میں پوری دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا جس کا اثر پاکستان پر بھی ہوا جس کی وجہ شریف فیملی سمیت 450افراد ایسے تھے جن کا تعلق پاکستان سے تھا۔ آخر کار معاملہ سپریم کورٹ میں آگیا جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میںپانچ رکنی بنچ نے دو اور تین کی اکثریت سے فیصلہ دیا جبکہ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی اہلیت کے معاملے پر فیصلہ تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کی رپورٹ سے مشروط کردیا گیا، آخر 60دن کی تحقیقات کے بعد 10جولائی کو سپریم کورٹ آف کے تین خصوصی بنچ میں جے آئی ٹی کی جمع کروائی گئی حتمی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز کے خلاف نیب آرڈیننس کے تحت ریفرنس بھیجنے کی سفارش کی ہے۔ جے آئی ٹی نے اپنے تفصیلی تجزیہ میں مدعا علیہم میاں نواز شریف، حسین نواز شریف اور حسین نواز شریف، مریم نواز کے ظاہر کردہ اور معلوم ذرائع آمدن اور ان چاروں کے پاس موجود دولت میں ایک واضح تفاوت کی نشاندہی کی ہے، جے آئی ٹی نے اپنے آخز کردہ نتائج میں لکھا ہے کہ مذکورہ بالامدعا علیہم کی پاکستان میں موجود کمپنیوں کا مالیاتی ڈھانچہ ان کے پاس موجود دولت کا ٹھوس جواز مہیا نہیں کرتا، جے آئی ٹی نے قرار دیا ہے کہ مدعا علیہم نے جو دولت ڈیکلیئر کی ہے اور اس کے حصول کے جو ذرائع بتائے گئے ہیں ان میں واضح تضاد موجود ہے۔ سعودی عرب میں قائم کمپنی ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ، برطانیہ میں قائم کمپنی فلیگ شپ انوسٹمنٹ، یو اے ای میں قائم کمپنی کپیٹل ایف زیڈ ای سے تحائف اور قرضوں کی شکل میں بھاری رقوم کی میاں نواز شریف اور مدیا علیہ نمبر سات اور میاں نواز شریف کی پاکستان میں قائم کمپنیوں کو بے قاعدہ طور پر ترسیل ہوتی رہی، جے آئی ٹی نے لکھا ہے کہ آف شور کمپنیوں کا کردار بہت اہم ہے کیونکہ متعدد کمپنیاں نیسکول لیمٹیڈ، نیلسن انٹر پرائزز، علینہ سروسز، لیمکان ایس اے، گومبرگروپ، ہلٹن نیشنل کی برطانیہ میں کاروبار سے تعلق کی نشاندہی ہوئی ہے، یہ کمپنیاں برطانیہ میں قائم کمپنیوں کو فنڈز کے ’’انفلوز‘‘ کے لئے استعمال ہوئیں اور اس پیسے سے برطانیہ میں مہنگی جائیدادیں خریدی گئیں، یہ فنڈز مدعلیہ کی برطانیہ، سعودیہ، یو اے ای، اور پاکستان میں قائم کمپنیوں میں آتے جاتے رہے ان کمپنیوں کے ذریعے مدعا لیہ نمبر ایک یعنی نواز شریف اور مدعا علیہ نمبر سات نے قرضہ اور تحفہ کی شکل میں ان فنڈز کی موومنٹ ہوتی رہی اور وہ ان کے وصول کندگان بھی تھے، جے آئی ٹی کے روبرو اس کا مقصد اور وجہ کو ثابت نہیں کیا گیا یوکے کی کمپنیاں نقصان کا شکار تھیں تاہم فنڈز کی بھاری موومنٹ کررہی تھیںاور اس سے ایک دھوئیں کی سکرین پیدا کی جارہی تھی کہ برطانیہ کی مہنگی جائیدادیں ان ہی کمپنیوں کے بزنس آپریشن سے حاصل کی گئیں ہیں جے آئی ٹی نے کہاکہ وہ احتساب آرڈیننس 1999 کی سیکشن 9(a-v) اور سیکشن 14(c)، کے تحت قابل گرفت ہے، جے آئی ٹی نے قانون شہادت کی مختلف شکوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بارے ثبوت مدعا علیہم پر تھا، جے آئی ٹی نے قرار دیاہے کہ مدعا لیہم معلوم آمدن کے ذرائع کی تصدیق کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں جو باالنظر میں ذرائع آمد ن اور اثاثوں کو جائز ثابت نہ کرنے کے مترادف ہے۔ دوماہ کے عرصے میں ٹیم کے 59 اجلاس منعقد ہوئے اور اس دوران اس نے وزیراعظم پاکستان نواز شریف اور ان کے اہلخانہ سمیت 23 افراد سے تفتیش کی۔ قطر کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے شہزادہ حمد بن جاسم کو دو مرتبہ ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے لیے بلایا تاہم انھوں نے پاکستان آ کر یا قطر میں پاکستانی سفارتخانے میں جا کر بیان دینے سے معذرت کی۔ تحقیقاتی عمل کے آغاز میں پاکستان مسلم لیگ کے رہنماؤں کی جانب سے تحقیقات میں تعاون کرنے کے بارے میں بیانات سامنے آتے رہے وہیں اختتامی ہفتوں میں ان بیانات کا لہجہ سخت اور تلخ ہوتا گیا۔ جبکہ پیپلزپارٹی جے آئی ٹی کو حکومتی ملی بھگت قرار دیتی رہی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق ان کی تحقیقات کے دوران 28 کو طلب کیا گیا جن میں طلبی کے باوجود 5گواہ حاضر نہیں ہوئے ان گواہوں میں حمد بن جاسم بن الجبار المشانی۔ امریکی شہری شیخ سعید۔ اسحاق ڈار کی بیگم کے عزیز موسیٰ غنی۔ کاشف مسعود۔ شیزی نیکول شامل ہیں۔ جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ آنے کے بعد کیس کی مسلسل سماعت ہوئی جبکہ 21جولائی کو تین رکنی خصوصی بنچ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ پانامہ کیس کا فیصلہ ملک کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کااہم ترین فیصلہ ہے جو پاکستان کی تاریخ پر انقلابی اثرات مرتب کرے گا۔ اس موقع پر اسلام آباد میں ریڈالرٹ ہو گا۔ سپریم کورٹ کے باہر اور ریڈ زون میں سیکورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے جائیں گے اور صرف متعلقہ افراد کو ہی سپریم کورٹ میں آنے کی اجازت دی جائے پولیس کی معاونت کے لئے رینجرز تعینات کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے پانامہ کیس فیصلے کیلئے درخواست گزاروں عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید کے وکلا اور مدعا علیہان وزیراعظم نوازشریف ان کے بچوں حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور کیپٹن(ر)صفدر کے وکلا کو بھی نوٹس جاری کر دیئے۔ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان آج سپریم کورٹ جائیں گے، عمران خان کے ہمراہ مرکزی قیادت بھی سپریم کورٹ جائے گی، پارٹی رہنماوں کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کر دی گئی۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کا اعلیٰ سطح کا وفد کل فیصلہ سننے سپریم کورٹ جائے گا۔ پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر حسین بخاری، وسطی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ، پنجاب کے جنرل سیکریٹری ندیم افضل چن، سیکریٹری اطلاعات پنجاب مصطفی نواز بھی وفد میں شامل ہونگے۔ سابق گورنر پنجاب سینئر قانون دان سردار لطیف کھوسہ بھی پارٹی وفد کے ہمراہ ہوں گے۔ شیخ رشید نے فیصلہ سننے کے لئے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ کل تاریخی دن ہے فیصلہ سننے ضرور جاؤں گا۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا بھی سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ۔ ترجمان جماعت اسلامی نے سینیٹر سراج الحق کے سپریم کورٹ جانے کی تصدیق کر دی۔ مسلم لیگ ق کے سینئر رہنما بھی چودھری شجاعت حسین بھی فیصلہ سننے جائیں گے۔ علاوہ ازیں پانامہ کیس کے فیصلہ کے حوالے سے مسلم لیگ ن کے حلقوں میں قرآن خوانی محافل اور دعائیہ تقریبات کا اہتمام کیا گیاہے۔ وزیراعظم ہاؤس میں خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا گیا۔ وزیراعظم ہاؤس ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز اور کیپٹن صفدر نے پانامہ لیکس کے فیصلے آنے سے قبل راولپنڈی سے چند پیر اور گدی نشین ر ات بارہ بجے بلوائے اور انکی ہدایت پر 3رات اور 4صبح صادق کے وقت بکروں کا صدقہ دینے کے لئے رات گئے اہتمام کر دیا گیا تھا۔ وزیراعظم ہاؤس میںو اقع مسجد کے قالین اور اعلیٰ جائے نماز مریم نواز کے ذاتی خرچہ پر رات گئے لیکر بچھا دیئے گئے۔ دریں اثنا وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پانامہ کیس کا فیصلہ 5رکنی بنچ سنائے گا، جس پر ہمیں اعتراض ہے، 2ججز نے جے آئی ٹی کے بعد کیس کی سماعتوں میں حصہ نہیں لیا تو بنچ میں کیسے دوبارہ شامل ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم نااہل ہوئے تو پاکستان غیر مستحکم ہو گا۔ وزیر داخلہ کیوں ناراض ہیں وہی بتا سکتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف اس وقت سازشیں عروج پر ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف اس وقت بھی مقبول ترین لیڈر ہیں۔ اگر وزیراعظم نااہل ہوئے تو عمران خان کو شاید وہ کچھ حاصل ہو جائے جو وہ ووٹ کے ذریعے حاصل نہ کر سکے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول کریں گے۔ جمعرات کے روز نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف سے زیادہ مقبول لیڈر کوئی نہیں ہے اللہ کرے فیصلہ وزیراعظم کے حق میں آئے۔ اگر خدا نخواستہ فیصلہ وزیراعظم کے خلاف آیا تو پاکستان کہاں کھڑا ہو گا اس کے بارے میں کسی کو نہیں معلوم ہے۔ البتہ عمران خان کو شاید وہ کچھ حاصل ہو جائے جو وہ ووٹ بیلٹ سے نہیں کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ فیصلہ سنائے گا۔ بنچ میں دو ایسے جج شامل ہیں جو جے آئی ٹی بننے کے بعد کی سماعتوں میں شامل ہی نہیں تھے۔ پانچ رکنی بنچ پر ہمیں تحفظات ہیں، 2ججز پہلے ہی علیحدہ ہو گئے تھے۔ احسن اقبال نے کہا کہ وزیر داخلہ کیوں ناراض تھے؟ اس کے بارے میں وزیر داخلہ ہی بہتر جواب دے سکتے ہیں۔ مجھ سے وہ کیوں ناراض تھے اس کے بارے میں بھی مجھے کچھ نہیں معلوم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان سازشوں میں گھرا ہوا ہے۔ اگر پاکستان کو غیر مستحکم کیا گیا تو فائدہ دشمن قوتیں اٹھائیں گیں۔ اس وقت بھارت اور اسرائیل کے وزیراعظم کی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں۔ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ ہم میں سے کس نے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش میں حصہ لیا اور کس نے پاکستان کو مستحکم کیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ جو فیصلہ کرے گی قبول کریں گے۔علاوہ ازیں وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ جو بھی صورتحال ہو گی اس کا سامنا کریں گے، میں صرف یہ جانتا ہوں کہ فیصلوں پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ معزز بنچ کے بننے پر بھی ہمارے وکلا کو حیرت ہوئی۔ وہ جمعرات کو نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہو گا اس پر عملدرآمد ہو گا۔ معزز بنچ نے بننے پر بھی ہمارے وکلا کو حیرت ہوئی کیونکہ قانونی مشیر کے مطابق 2 فاضل جج صاحبان پہلے ہی رائے کا اظہار کر چکے، عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ اللہ خیر کرے گا ہم کیوں کچھ ایسا سوچیں جس سے دوسری صورتحال پیدا ہو۔