شہبازشریف کی وزارت عظمیٰ میں نوازشریف کی پالیسیوں کا تسلسل رہے گا
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) توقعات کے مطابق شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کی صورت میں مجموعی حد تک نواز شریف کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے گا لیکن قوی امکان ہے خارجہ پالیسی امور پر شہباز شریف قدرے محتاط اور قدامت پسندانہ رویہ اختیار کریں گے جب کہ بھارت کے باب میں وہ سخت گیری کا مظاہرہ بھی کر سکتے ہیں۔ نئے وزیر اعظم کے طور پر انہیں سب سے پہلے اپنی کابینہ کیلئے قابل اعتماد ساتھیوں کے چنائو، اس کے بعد مشرقی و مغربی سرحدوں پر غیر معمولی فوجی دبائو، افغان پالیسی کے ضمن میں امریکہ کا جارحانہ رویہ، یمن اور قطر کی وجہ سے ریاض کی سردمہری، داخلی سلامتی کے سخت ترین چیلنج، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ غلط فہمیوں کے ازالہ، معیشت کی ترقی کو برقرار رکھنے جیسے فوری مسائل سے نمٹنا ہو گا۔1988 میں رکن صوبائی اسمبلی کی حیثیت سے سیاسی کیرئیر کا آغاز کرنے والے شہباز شریف 1990 میں رکن قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں تاہم پنجاب کی گورننس، صوبائی سیاست، ترقیاتی امور اور سول ملٹری تعلقات ہی ان کی اصل مہارت کا میدان ہیں۔ ان کی شہرت ایک مستعد ایڈمنسٹریٹرکی ہے۔ عربی اور جرمن زبانیں روانی سے بولنے والے شہباز شریف دنیا بھر میں ایک جانے پہچانے رہنما ہیں جنہیں کسی تعارف کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تاہم فرائض کی بجا آوری میں ان کی صحت کے مسائل آڑے آ سکتے ہیں۔ امکان یہی ہے کہ وزیر اعظم بننے کے باوجود شہباز شریف پنجاب کے امور سے لا تعلق نہیں ہوں گے جو شریف خاندان کی بالعموم اور ان کی اپنی سیاست کا بھی خاص میدان ہے۔ عبوری وزیر اعظم کی کابینہ تو محض کام چلانے کیلئے ہو گی تاہم شہباز کی کابینہ بھاری بھرکم ہو سکتی ہے کیونکہ اگلے انتخابات کیلئے حکومت کے اتحادیوں کے علاوہ پارٹی کے اندر پارلیمنٹ میں موجود اکثر گروپوں کو بھی کابینہ میں کھپانا ہو گا۔ کابینہ میں کچھ پرانے چہرے غائب اور متعدد نئے چہرے دکھائی دیں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران جی ایچ کیو کے ساتھ مثالی تعلقات ہوں گے اور پالیسی معاملات پر بھی ہم آہنگی ہو گی۔ خارجہ پالیسی کے مجموعی خدوخال تقریباً پہلے جیسے رہیں گے۔ باور کیا جاتا ہے کہ دفاع و خارجہ امور کے قلمدان وہ اپنے پاس ہی رکھیں گے اور سرتاج عزیز ہی ان کے بھی مشیر خارجہ ہوں گے۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ان کے معتمد ساتھی ہیں اور یقین کیا جاتا ہے کہ وہ پرانے منصب پر ان کی کابینہ میں ضرور نظر آئیں گے اور وفاق میں گورننس کے چینلجوں سے نمٹنے میں ان کی مدد کریں گے۔ یہ واضح نہیں کہ انہیں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا ساتھ حاصل رہے گا یا نہیں؟ کیونکہ ڈار ہی پاکستان کی موجودہ معیشت کے معمار ہیں۔ واشنگٹن میں شہباز شریف کی خاصی شناسائی ہے لیکن پاک چین معاشی راہداری منصوبہ کی وجہ سے بیجنگ میں وہ خوب جانے پہچانے جاتے ہیں۔ جلاوطنی کے قیام کی وجہ سے وہ پاک سعودی تعلقات سے بھی بخوبی آگاہ ہیں اور ریاض و اسلام آباد کے درمیان اعتماد کی بحالی کیلئے اقدامات کر سکتے ہیں۔ نواز شریف کی طرف سے نئے وزیر اعظم کے طور پر شہباز شریف کی نامزدگی نے شریف خاندان کے اندر مبینہ اختلافات کے تاثرکی نفی کر دی ہے۔