نوازشریف نااہل قرار‘ شہباز وزیراعظم بنیں گے
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ خصوصی نمائندہ)سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے پانامہ کیس کا فیصلہ جاری کردیا ہے۔ پانامہ بنچ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تھا۔ کیس کا فیصلہ جسٹس اعجاز افضل خان نے سنایا جسے بعدازاں جسٹس کھوسہ نے ری پروڈیوس کیا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں وزیراعظم کو عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دے دیا ہے جبکہ دیگر کے خلاف نیب میں ریفرنسز دائر کرنے کی ہدایت کی گی ہے۔ پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو نااہل قرار دے دیا ہے۔ بنچ نے قرار دیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے کپیٹل ایف زیڈ ای ، جبل علی متحدہ عرب امارات سے غیر موصول شدہ قابل وصول اثاثے اپنے 2013ء کے انتخابات میں جمع کرائے جانے والے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کئے ہیں، اس طرح مدعا علیہ نے روپا ایکٹ کی سکیشن 12(2f)کی خلاف ورزی کی، عوامی نمائندہ ایکٹ 1976ء کی بھی خلاف ورزی کی گئی اور الیکشن کمشن میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے ہوئے غلط معلومات ظاہر کیں۔ اس طرح میاں نواز شریف روپا ایکٹ کی سیکشن 99f، اور آئین کے آرٹیکل 62,(1f)، کے تحت صادق اور امین نہیں رہے اس طرح انہیں ممبر پارلیمنٹ کے طور پر نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں الیکشن کمشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ فوری طور پر میاں نوازشریف کی بحیثیت رکن پارلیمنٹ نااہل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کریں اور اس کے فوری بعد میاں نواز شریف وزیر اعظم کے منصب کے عہدے پر فائر نہیں رہیں گے۔ فاضل بنچ نے یہ ہدایت بھی کی ہے کہ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے تحت جمہوری عمل کے تسلسل کے لئے تمام ضروری اقدامات کو یقینی بنائیں گے۔ بنچ نے چیف جسٹس آف پاکستان سے یہ درخواست کی ہے کہ فاضل عدالت سے کسی جج صاحب کو نامزدکریں جو موجودہ فیصلے پر عملدرآمد کی مانیٹرنگ کریں اور نیب اور احتساب عدالت میں کارروائی کی نگرانی بھی کریں گے۔ فاضل پانچ رکنی بنچ نے تفصیلی اور جامع رپورٹ جمع کروانے پر جے آئی ٹی کے ممبران اور مددگار سٹاف کی کوشش کی تعریف کی ہے اور جے آئی ٹی کے ارکان کی ملازمت کی میعاد کے دوران تحفظ فراہم کیا جائے ان کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی منفی اقدام جس میں تبادلہ یا پوسٹنگ شامل ہے نہیں اٹھایا جاسکے گا ایسے کسی بھی اقدام سے پہلے فاضل چیف جسٹس کی جانب سے نامزد کئے جانے والے مانیٹرنگ جج کے علم میں لانا لازم ہو گا، فاضل بنچ نے اپنے فیصلے میں یہ حکم دیا ہے کہ نیب اس فیصلے کے اعلان کے چھ ہفتے کے اندر راولپنڈی اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرے اور یہ ریفرنس جے آئی ٹی کی رپورٹ کے اندر موجود مواد یا ایف آئی اے یا نیب کے پاس پہلے سے موجود مواد یا اس کے بعد ملنے والے مواد جو ایم ایل اے کی بنیاد پر حاصل ہوپر مبنی ہو گا۔ فاضل بنچ نے حکم دیا ہے کہ محمد نواشریف، مریم نواز، حسن نواز، حسین نواز، محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ( فلیٹ نمبر-A 16-16A ,17-17) کے حوالے سے ریفرنس دائر کرے۔ اس ریفرنس کی تیاری کرتے ہوئے نیب پہلے سے کی جانے والی تفتیش سے ملنے والے مواد کو پیش نظررکھے گا۔ فاضل بنچ نے مزید حکم دیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف، حسین نواز اور حسن نواز کے خلاف عزیزیہ سٹیل کمپنی اور ہل میٹل کے حوالے سے بھی ریفر نس دائر کرے۔ فاضل بنچ نے مزید حکم دیا ہے کہ نوازشریف ، حسین نواز اور حسن نواز کے خلاف ان کی ملکیتی کمپنیاں کے حوالے سے ریفرنس دائر کریں گے جس کے بارے میں اتفاق رائے سے پیرا گراف نمبر 9 میں جن کمپنیوں کی نشاندہی کی گئی ہے کے حوالے سے ریفرنس دائر کیا جائے۔ فاضل بنچ نے اپنے فیصلے میں فریق نمبر 10( اسحاق ڈار )کے خلاف اپنے ذرائع سے زائد اثاثے رکھنے پر بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔ نیب اس ساری کارروائی میں شیخ سعید، موسیٰ غنی‘ کاشف مسعود قاضی‘ جاوید کیانی اور سعید احمد اورکسی بھی دوسرے شخص جس کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق مدعا علیہم نمبر ایک میاں محمد نوازشریف مدعا علیم نمبر چھ مریم نواز اور مدعاعلیہم نمبر10 اسحاق ڈارکے آمدن سے زائد اثاثے اور فنڈز کے حصول میں مدد کرنے والے ان افراد یا ان کے علاوہ بھی کوئی ہوں تو نیب ان کے خلاف بھی کارروائی کرنے کا مجاذ ہے، عدالت نے اپنے فیصلہ میں کہا ہے کہ نیب کو اگرکوئی اور اثاثہ نظر آتا ہے تو اس ضمن میں وہ مزید ضمنی ریفرنسز دائر کرسکتا ہے احتساب عدالت تمام ریفرنسسز پر فیصلہ ریفرنس دائر کئے جانے کے چھ ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کی پابند ہو گی اگر احتساب عدالت کوئی دستاویز بیان حلفی یا کوئی ڈیڈ جعلی پاتی ہے تو وہ قانون کے مطابق ذمہ دار فرد کے خلاف مناسب اقدام اٹھائے گی۔ فاضل بنچ کے پانچوں ججوں نے اتفاق رائے سے وزیراعظم کو عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دیتے ہوئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعظم کے بچوں حسین نواز، مریم نواز ، حسن نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے خلاف نیب میں ریفرنسز دائر کرنے کی بھی ہدایت کی ہے ۔25صفحات پر مشتمل فیصلہ میں سپریم کورٹ کے پانچوں ججز نے اپنے الگ الگ نوٹسز بھی تحریر کیئے ہیں۔ تین رکنی خصوصی بنچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل خان جو فیصلہ سنانے والے پانچ رکنی بنچ کے رکن بھی ہیں نے اپنے تحریری فیصلے میں لکھا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ 20اپریل 2017ء کے آئینی پٹیشن نمبر 29,30,2016, اور آئینی پٹیشن نمبر 3,2017کے ضمن میں دیئے گئے فیصلہ کا ہی ایک تسلسل ہے انہوں نے 20 اپریل کے حکم میں لکھے گئے بعض نکات کا حوالہ دیا جس کے تحت جے آئی ٹی بنائی گئی تھی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ 10جولائی کو تین رکنی عملدرآمد بنچ کے آگے پیش کی تھی۔ جس کے بعد تمام فریقین کو عدالت کے روبرو سنا گیا ، جبکہ میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار نے تحفظات پر مبنی اپنی سی ایم اے بھی داخل کیں۔ فاضل جج نے قرار دیا جو مواد جمع ہوا تھا اس سے بادی النظر میں نیب آرڈیننس کی سیکشن نمبر 9,10,15 کے تحت مدعا علہیم نمبر ایک چھ اور سات اور آٹھ کے خلاف فلیگ شپ انوسمنٹ لیمٹڈ ، ہارٹ سٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگ ، کوئنٹ ایٹون پلیس ٹو، فلیگ شپ سکیورٹیز وغیرہ جسے اثاثوں کے بارے میں مقدمہ چلایا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مدعا علیہ نمبر 10 اسحاق ڈار کا تعلق ہے ان کے اثاثے بھی 9.11ملین سے 837.7 ملین روپے تک یعنی 91 فیصد اضافہ ہونے پر بھی مقدمہ چل سکتا ہے۔ فاضل جج نے قرار دیا کہ جہاں تک جے آئی ٹی کے حدیبیہ پیپرز ملز جسے لاہور ہائیکورٹ نے ختم کردیا تھاکے بارے میں حد سے باہر نکلنے کی دلیل کا تعلق ہے وہ درست معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ جے آئی ٹی نے اس سلسلے میں صرف شفارشات دی ہیں اگر نیب کا پراسیکیوٹر جنرل حدیبہ پیپرز ملز کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردے تو عدالت اور سٹپ کہنے کے معاملے کو بہتر انداز میں نمٹاسکتی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے تحریر کیا ہے باقی ججز نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے اس پر اپنے دستخط کئے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لاجر بنچ نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف اپنے فیصلے میں ’کیلبری فونٹ‘ کا ایک مرتبہ پھر ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جعلسازی ہے اور اس کی بنیاد پر مریم نواز کے خلاف جعلسازی اور جعلی دستاویزات پیش کرنے کے الزامات میں کارروائی کی جا سکتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ کیلبری فونٹ 2007ء میں دستیاب نہیں تھا اور مریم نواز شریف کی ٹرسٹ ڈیڈ پر 2006ء کی تاریخ درج تھی جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ یہ ایک جعلی دستاویز ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو باہمی قانونی معاونت کے ذریعے فوزیکا فورنسکا کے اینٹی منی لانڈرنگ آفیسر سے حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق مریم نواز ہی لندن کے ایونفیلڈ اپارٹمنس کی بینفیشل اونر یا مالک ہیں اور ان کو ان فلیٹس کی ٹرسٹی ظاہر کرنے والے دستاویزات جو شریف خاندان کی طرف سے پیش کیے گئے وہ جعلی ہیں۔جسٹس (ر) شائق عثمانی اور فروغ نسیم نے کہا ہے کہ نااہلی کی مدت کے تعین کیلئے ریویو میں جانا ضروری ہے۔ سابق وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف کو آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا اس کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین نہیں‘ فیصلے میں تعین نہ ہونے کا مطلب تاحیات نااہلی ہے۔
اسلام آباد (محمد نواز رضا+عترت جعفری +) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کو اگلا وزیراعظم بنانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ سابق وزیراعظم محمد نوازشریف کی زیرصدارت اور وزیراعظم ہائوس میں مسلم لیگ (ن) کے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں ان کی طرف سے میاں شہبازشریف کو آئندہ وزیراعظم منتخب کرانے کی تجویز پیش کی گی جس کی شرکاء کی طرف سے مکمل تائید کی گئی جس کی باضابطہ طورپر مسلم لیگ (ن) پارلیمانی پارٹی سے آج توثیق کی جائیگی۔ پارلیمانی پارٹی کا اجلاس آج 4 بجے شام طلب کر لیا گیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کے اجلاس میں سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے تجویز پیش کی کہ میاں نوازشریف اسلام آباد سے لاہور تک بذریعہ جی ٹی روڈ جائیں۔ اس تجویز کو شرکاء کی جانب سے پذیرائی حاصل ہوئی۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگی رہنما چودھری تنویر خان نے تجویز پیش کی کہ مسلم لیگ کو میاں نوازشریف کی لاہور واپسی پر اپنی سیاسی قوت کا بھرپور اظہار کرنا چاہئے۔ دوسری طرف سابق وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی یا خواجہ محمد آصف کو 45 روز کیلئے وزیراعظم بنائے جانے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق انکے بعد شہبازشریف کو وزیراعظم بنایا جائیگا۔ ذرائع کے مطابق مشاورتی اجلاس میں سابق وفاقی وزیر احسن اقبال کے نام پر بھی غور کیا گیا۔ شہبازشریف کو این اے 120 سے الیکشن لڑا کر منتخب کرایا جائے گا۔ نوازشریف کی نااہلی کے باعث اس حلقہ میں ضمنی الیکشن ہوگا۔ علاوہ ازیں پانامہ کیس سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد فوری وزیراعظم نوازشریف اپنے عہدے سے سبکدوش ہو گئے اور ان کی طرف سے منصب کی ذمہ داریاں چھوڑنے کے نتیجے میں وفاقی کابینہ تحلیل ہو گئی ہے‘ تاہم تمام مشیروں‘ وفاقی وزرائ‘ وزرائے مملکت‘ معاونین اپنے مناصب پر برقرار نہیں رہے۔ میاں نوازشریف نے تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے 5 جون 2013ء کو منصب کی ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔ 28 جون 2017ء تک اس منصب پر فائز رہے۔ اس طرح وہ اپنی تیسری میعاد بھی 4 سال 33 دن وزارت عظمیٰ پر فائز رہے۔ نوازشریف نے وزیراعظم ہائوس کو الوداع کہہ دیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق نوازشریف وزیراعظم ہائوس سے پنجاب ہائوس منتقل ہو گئے۔ نوازشریف نے پہلے ہی سامان پنجاب ہائوس منتقل کرنے کی ہدایات کر دی تھیں۔ نوازشریف کے ساتھ ان کے اہل خانہ بھی وزیراعظم ہائوس سے روانہ ہوئے ہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی پر الیکشن کمشن نے قومی اسمبلی کے حلقہ 120 لاہور کی نشست کو خالی قرار دیدیا۔ نوازشریف رکن قومی اسمبلی نہیں رہے۔ اس بارے میں باضابطہ طورپر قائم مقام چیف الیکشن کمشنر عبدالغفار سومرو کی زیرصدارت کمشن کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ وزیراعظم کی نااہلی کے بارے میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے پر غور کیا گیا۔ عدالتی فیصلے کی روشنی میں قرار دیدیا گیا ہے کہ نااہلی پر نوازشریف رکن قومی اسمبلی نہیں رہے۔ حلقہ 120 لاہور کی نشست خالی ہو گئی ہے اور اس بارے میں الکشن کمشن نے نوٹیفکیشن سپیکر قومی اسمبلی سمیت متعلقہ اداروں کو بھیج دیا ہے۔ آئندہ چند روز میں اس حلقے میں ضمنی الیکشن کا اعلان کر دیا جائے گا۔ نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے نااہل قرار دیئے جانے کے بعد قومی اسمبلی آئندہ ہفتے نئے قائدین ایوان کا انتخاب کرے گی۔ ملک کے 21 ویں وزیراعظم کا انتخاب ہوگا۔ صدرمملکت نئے وزیراعظم سے حلف لیں گے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کو ایک بار پھر دوتہائی اکثریت سے زائد سے وزیراعظم منتخب کر لیا جائے گا۔پانامہ کیس میں وزیراعظم نواز شریف کی نااہلی کے بعد شریف خاندان کے لئے مستقبل کی سیاست کے حوالے سے کئی سوالات کھڑے ہو گئے ہیں اور ان نازک مراحل سے گزرنے کے لئے تدبر اور معاملہ فہمی سے گزرنا ہو گا۔ میاں نواز شریف نے فیصلہ پی ایم ہاؤس کے فیملی ونگ میں سنا جس کے اعلان سے پہلے سینئر راہنما ان کے پاس آ چکے تھے۔ فیصلے کے بعد دوسرے راہنماؤں اور قانونی ٹیم کی بھی آمد ہوئی۔ سابق وزیراعظم نے مشاورت کے دوران اپنی سبکدوشی کا بیان دینے کی ہدایت کی۔ ان کے معتمد خاص عرفان صدیقی نے ہاتھ سے بیان لکھ کر عملہ کو دیا اور اسے فوری جاری کرنے کی ہدایت کی۔ الیکشن کمشن کی طرف سے ان کو ممبر قومی اسمبلی کی حیثیت سے ڈی نوٹیفائی کرنے کے نوٹیفکیشن کی اطلاع ملنے کے بعد میاں نواز شریف اپنے دفتر کی جانب گئے اور اپنے سٹاف سے الوداعی ملاقات کی۔ ان میں ملٹری سیکرٹری اور سیکرٹری فواد حسن فواد شامل تھے۔ میاں نواز شریف بعدازاں اپنے مختصر سامان کے ساتھ پنجاب ہاؤس چلے گئے۔ انکے ہمراہ بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز شریف بھی تھیں۔ میاں نواز شریف کے لئے سب سے پہلا سوال کسی ممبر قومی اسمبلی کو وزیراعظم کے طور پر پارٹی کی طرف سے نامزد کرنا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف نام ہیں۔ خواجہ آصف جو کشن گنگا کیس کے معاملہ کی سماعت کے باعث واشنگٹن میں ہیں فوری طور پر وطن واپس آ رہے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق خواجہ آصف کو 45 روز اور بعدازاں میاں شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ خواجہ آصف کو ’’اقامہ‘‘ کے ایشو کا سامنا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں حدیبیہ مل کیس کھولنے کا حکم دیا گیا ہے جس میں میاں شہباز شریف بھی ایک ملزم ہیں اس طرح یہ چوائس ممکن تو ہے تاہم صوبہ پنجاب کی اہمیت اور آئندہ کی صورتحال میں کافی سوچ کے بعد ہی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ دیگر ناموں میں احسن اقبال اور شاہد خاقان عباسی‘ دو نام ایسے ہیں جن کے خلاف اس وقت کوئی خاص ایشو موجود نہیں ہے۔ فیصلے میں میاں نواز شریف کی اہلیت کی معیاد کے حوالے سے کافی تشریحات کی جا رہی ہے۔ ماہرین قانون کی ایک تشریح یہ ہے کہ چونکہ فیصلے میں معیاد کا ذکر موجود نہیں اس لئے نااہلی دائمی ہے۔ یہ اس وقت تک مؤثر رہے گی جب تک عدالت عظمیٰ کسی ریویو میں حکم میں کوئی ترمیم نہیں کرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 کے تحت نااہلی میں تو معیاد مقرر بھی ہے تاہم 62 کے تحت معیاد مقرر نہیں ہے۔ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی میں معیاد کا ذکر حکم میں موجود تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک میاں نواز شریف کی اسلام آباد سے لاہور تک شہر بہ شہر جلسے کرتے ہوئے جانے کا خیال بھی بعض راہنماؤں کے ذہن میں تھے تاہم آثار بتا رہے ہیں کہ فوری طور پر اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ میاں نواز شریف کے لئے مسلم لیگ (ن) کی سربراہی بھی اب ایشو بنے گی انہیں اس منصب کے لئے بھی نیا راہنما آگے لانا پڑے گا۔ اس سلسلے میں بیگم کلثوم نواز شریف بھی زیرغور آ سکتی ہیں۔ میاں نواز شریف نے آئندہ چند روز بہت مصروفیت میں گزرنا تھے۔ 31 جولائی کو بلوکی پلانٹ کا افتتاح کرنا تھا۔ جبکہ 4 اگست کو داسو ڈیم کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھنا تھا۔ 15 اگست کو چشمہ فور کا افتتاح کرنے کا پروگرام تھا جبکہ 14 اگست کو اسلام آباد میٹرو کے اسلام آباد نیو ائرپورٹ سیکشن کے افتتاح کے علاوہ یوم آزادی پر پرچم کشائی کی تقریب میں شریک ہونا تھا۔