1987میں پاکستان پر حملے کی تیاری سے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بے خبر رکھا گیا تھا سابق کمانڈر ان چیف لیفٹیننٹ جنرل پریم ناتھ
واشنگٹن/نئی دہلی (اے این این ) بھارت کے سابق کمانڈر ان چیف لیفٹیننٹ جنرل پریم ناتھ ہون نے اپنی نئی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ 1987میں پاکستان پر حملے کی تیاری سے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بے خبر رکھا گیا تھا۔امریکی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور بھارت دونوں ممالک 1986-87 میں خفیہ طور پر جوہری بم تیار کر چکے تھے۔ پاکستان جوہری صلاحیت میں اس وقت بھارت سے آگے تھا۔ تاہم بھارت نے عین اس وقت رسک لیتے ہوئے ایک خطرناک حکمت عملی تیار کی اور آپریشن براس ٹیکس کے نام سے بڑے پیمانے پر پاکستان کی سرحد کے قریب راجستھان میں فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا۔ بھارتی فوج کی مغربی کمانڈ کے اس وقت کے کمانڈر ان چیف لیفٹیننٹ جنرل پریم ناتھ ہون نے اپنی کتاب The Untold Truth میں لکھا ہے کہ یہ محض فوجی مشقیں نہیں تھیں بلکہ ان کا مقصد پاکستان کے خلاف مکمل جنگ کا آغاز کرنا تھا۔ اس کی منصوبہ بندی اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل سندرجی اور دفاعی امور کے منسٹر آف سٹیٹ ارون سنگھ نے ذاتی مفاد کیلئے تیار کی تھی جس کیلئے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو قطعی طور پر لا علم رکھا گیا تھا۔اپنی کتاب کے نویں باب میں تفصیل بتاتے ہوئے جنرل پریم ناتھ ہون لکھتے ہیں کہ آرمی چیف جنرل سندر جی کا مقصد جنگ جیت کر فیلڈ مارشل کا عہدہ حاصل کرنا تھا جبکہ وزیر دفاع ارون سنگھ وزیر اعظم بننے کے خواہشمند تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حکمت عملی کے مطابق بھارتی فوج نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے بھارتی علاقے میں پاکستانی فوج کو چھوٹے پیمانے پر کارروائی پر اکسا کر مکمل جنگ میں دھکیلنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ 15 جنوری 1987 کو آرمی ڈے کے موقع پر ہونے والے عشائیے کے دوران وزیراعظم راجیو گاندھی نے ان سے پوچھا کہ ان کی مغربی کمان میں صورتحال کیسی ہے۔ جواب میں انہوں نے کہا، جناب وزیراعظم!بہت اچھی ہے اور بہت جلد جنگی محاذ سے آگے جاکر میں آپ کو ایک طشتری میں سندھ اور دوسری طشتری میں لاہور پیش کروں گا۔جنرل ہون کہتے ہیں کہ راجیو گاندھی طیش میں آ گئے اور فورا پارٹی چھوڑ کر چلے گئے، وہ پاکستان سے جنگ نہیں چاہتے تھے۔ لہذا 20 جنوری کو آرمی چیف جنرل سندرجی نے انہیں حکم دیا کہ فوجوں کی پیش قدمی فوری طور پر روک دی جائے۔بھارت کی طرف سے آپریشن براس ٹیکس کے رد عمل میں پاکستان نے بھی اپنی فوجوں کو متحرک کر دیا تھا۔ پاکستانی حکام بھی یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ یہ محض فوجی مشقیں ہیں۔ بلکہ اسے پاکستان پر حملہ کرنے کی تیاری کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔دفاعی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس صورت حال کے نتیجے میں دونوں ہمسایہ ممالک میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی رفتار تیز ہوگئی۔ سیاسی امور کیلئے امریکہ کے سابق معاون وزیر خارجہ کے اعلی مشیر ایشلے ٹیلس کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ میں آپریشن براس ٹیکس ایک اہم سنگ میل ہے۔وہ کہتے ہیں آپریشن براس ٹیکس بھارت کا آخری حربہ تھا جو جارحانہ سفارکاری کے تناظر میں ایک بڑی فوجی مشقوں کے طور پر استعمال کیا گیا جس کا مقصد پاکستان کو خبردار کرنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے مبینہ طور پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کے سلسلے میں اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی نقطہ نظر سے بھارت کی طرف سے مستقبل میں فوجی انداز میں جارحانہ کارروائیوں کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے امکان کے پیش نظر پاکستان نے محسوس کیا اس کے پاس جوہری ہتھیار تیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ لہذا پاکستان نے بھی اپنے جوہری پروگرام کی رفتار تیز کر دی۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا جوہری پروگرام پہلے ہی سے آگے بڑھ رہا تھا لیکن آپریشن براس ٹیکس نے اسے منطقی انجام تک پہنچا دیا۔اسٹینفورڈ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر سکاٹ سیگن کہتے ہیں کہ آپریشن براس ٹیکس کے دوران بھارتی آرمی چیف جنرل سندرجی نے پاکستان کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملہ کرنے کیلئے وزیر اعظم راجیو گاندھی سے اجازت طلب کی۔ لیکن، راجیو گاندھی نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان پر حملہ نہیں کرے گا۔ پروفیسر سکاٹ سیگن کے مطابق آپریشن براس ٹیکس کے واقعات اشارہ کرتے ہیں کہ بعض اوقات بھارتی فوج نے سیاسی قیادت کو نظرانداز کرتے ہوئے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کی۔ اگر وہ پاکستان پر حملہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو ملک کی سیاسی قیادت کو یہی جواز پیش کرتے کہ فوجی مشقیں قابو سے باہر ہو جانے کے باعث یہ حملہ کیا گیا۔ آپریشن براس ٹیکس کے دوران جنوری 1987 میں ممتاز بھارتی صحافی کلدیپ نیئر نے پاکستانی ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر قدیر خان کا انٹرویو کیا جس میں ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ پاکستان جب چاہے ایٹم بم بنا سکتا ہے۔ یہ انٹرویو دو ماہ بعد مارچ 1987 میں لندن آبزرور میں چھپا۔ تھا لیکن امریکی حکام کی نظر میں آنے سے پہلے ہی کلدیپ نیئر نے بھارتی حکام کو اس کے بارے میں آگاہ کر دیا تھا لیکن امریکہ اور برطانیہ میں اس انکشاف سے تشویش کی لہر دوڑ گئی اور امریکہ نے فوری طور پر آپریشن براس ٹیکس سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو ختم کرانے کیلئے ایک خصوصی ایلچی کو بھارت اور پاکستان روانہ کیا۔اسی دوران پاکستانی صدر جنرل ضیا الحق مدعو کئے بغیر پاکستان اور بھارت کا کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے بھارت پہنچ گئے جہاں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد کشیدگی کی صورتحال نرم پڑ گئی اور دونوں ملکوں نے سیکرٹری خارجہ کی سطح پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔علاوہ ازیں 1990ءیہی وہ سال تھا جب بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی کی تحریک زور پکڑ گئی اور بھارتی پنجاب میں سکھ قوم پرستوں نے بھی آزاد خالصتان کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ بھارت نے الزام لگایا کہ ان دونوں تحریکوں کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی حمایت حاصل تھی۔امریکہ کے معروف تھنک ٹینک سٹمسن سینٹر کے شریک بانی اور سینئر محقق مائیکل کریپن کے مطابق پاکستان میں یہ خدشہ محسوس کیا جانے لگا کہ بھارت پاکستان کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہا ہے۔ دوسری جانب امریکی حکام کو خود اس کے خفیہ اداروں نے اطلاع دی کہ پاکستان ایٹم بم تیار کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اسی وقت پاکستان میں امریکی سفیر رابرٹ اوکلے نے اطلاع دی کہ سرگودھا کی جانب کچھ ٹرک روانہ کئے گئے ہیں اور ممکنہ طور پر ان میں جوہری بم بھی موجود ہیں۔ یوں امریکہ نے قومی سلامتی کے نائب مشیر رابرٹ گیٹس کو جنوبی ایشیا روانہ کیا تاکہ پاکستان ، بھارت کشیدگی کو ختم کیا جا سکے۔
بھارتی جنرل