کاسا 1000 منصوبہ تخیلاتی اور ناقابل عمل ہے: سینٹ کمیٹی
اسلام آباد(آئی این پی) سینٹ قائمہ کمیٹی منصوبہ بندی و ترقی نے کاسا1000 توانائی منصوبے کو تخیلاتی اور ناقابل عمل قرار دیدیا، ارکان کمیٹی کی جانب سے منصوبوں کی سکیورٹی اور قرضے کی واپسی کے طریقہ کار پر شدید تحفظات کا اظہارکردیا، چیئرمین کمیٹی سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا کہ ہمیں بڑے بڑے منصوبوں سے بڑی کرپشن اور بڑے کمیشن کی وجہ سے پیار ہے۔ اجلاس میں وزارت پانی و بجلی حکام نے انکشاف کیا کہ کاسا 1000 منصوبہ سال 2021 ء تک مکمل ہونے کا امکان ہے اور پاکستان صرف اپنی حدود میں بنائے جانے والے انفراسٹرکچر اور اس کیلئے ملنے والے قرضے کا ذمہ دار ہے۔ حکام نے بتایا کہ منصوبے میں تین کور ایبل اسٹیشنز شامل ہونے کی وجہ سے دنیا کی معروف کمپنیوں نے اسے ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے عدم دلچسپی کا اظہار کیا تھا جس کی وجہ سے اس کے ڈیزائن میں تبدیلی کی گئی ہے۔ سینیٹر نوابزادہ سیف اللہ مگسی نے سوال اٹھایا کہ اگر افغانستان میں ٹرانسمیشن لائن کو تباہ کر دیا جاتا ہے تو قرضے کی واپسی کا طریقہ کار کیا ہوگا جس پر وزارت پانی وبجلی حکام نے بتایا کہ پاکستان کو قرض کی واپسی جاری رکھنا ہوگی۔ وزارت ریلویز حکام نے بتایا کہ جائیکا کے تعاون سے تیار پلان کے پی سی ون میں منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 2 ارب 58 کروڑ ڈالر سے زائد اور تکمیل کا دورانیہ سات سال سے بھی زائد تھا لیکن اس منصوبے کو سی پیک میں شامل کرنے اور لاہور اورنج لائن منصوبے کی طرز پر نئی ڈیزائننگ کے بعد جو پی سی ون تیار کیا گیا ہے اس کے تحت کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کی لاگت کا تخمینہ ایک ارب نوے کروڑ ڈالر اور تکمیل تین سال میں ہوگی۔ کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ تین سال میں مکمل ہوگا، حکومت سندھ اور چین کے درمیان مفاہمت کی یاداشت پر دستخط ہو گئے ہیں۔ منصوبے پر 270 ارب روپے لاگت آئے گی۔کاسا ایک ہزار منصوبے کے بارے میں بتایا گیا کہ کرغستان ، تاجکستان سے پن بجلی خریدنے کیلئے چار ملکی معاہدہ ہو ا ہے، مئی سے ستمبر تک جتنی بجلی افغانستان کے راستے پاکستان پہنچے گی اتنی ہی ادائیگی کی جایاکرے گی ۔ ورلڈ بنک ، ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی ادارے مدد کریں گے ۔ موسم گرما میں کاسا منصوبہ سے پاکستان کو ایک ہزار میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی اور افغانستان کو تین سو میگا واٹ بجلی ملے گی ۔ بجلی کی ٹرانسمیشن لائنوں کے کیلئے بولی کا عمل شروع ہے ۔ لائن افغانستان سے گزر کر پاکستان آئے گی۔ شیری رحمان نے کہا کہ معلوم نہیں افغانستان کے حالات کب ٹھیک ہونگے منصوبے کا مستقبل افغانستان کے حالات سے جڑا ہے ۔ ارکان کمیٹی نے تجویز کیا کہ افغانستان کی امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے چار وں ممالک کے معاہدے میں شق شامل کی جائے۔