عمران نااہلی کیس:ممنوعہ فنڈز کے نا قابل تردید ثبوت لانا ہونگے :سپر یم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت +ایجنسیاں+ نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر عمران خان نااہلی کیس کی سماعت ہوئی۔ حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے غیرملکی افراد اور کمپنیوں سے ملنے والی فنڈنگ چھپائی گئی۔ عدالت نے یہ راستہ نہ روکا تو فلڈ گیٹ کھل جائیگا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ غیرملکی پیسے کا دروازہ بند کرنے کیلئے متعلقہ فورم موجود ہے۔ وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ دہشت گردوں کو بھی غیرملکی فنڈنگ ہی ہوتی ہے۔ غیرملکی پیسے کا دروازہ بند کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ امریکہ میں بیٹھ کر بھی پاکستانی شہری وفاداری کا پابند ہوتا ہے جبکہ عدالت نے بھی ملک کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بات فنڈنگ کی ہو رہی ہے سازش کی نہیں، ممنوعہ فنڈز کی تحقیقات ہونی چاہئے لیکن فنڈز میں کتنا ممنوعہ ہے اور کتنا غیر ممنوعہ، یہ تعین کیسے ہو گا۔ اکرم شیخ نے کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے فنڈز زیادہ لئے گئے اور کم دکھائے گئے جبکہ کمپنی کے معاہدے میں لکھا ہے کہ فنڈز پی ٹی آئی کی سرگرمیوں پر خرچ ہوں گے۔ کمپنی معاہدے میں ممنوعہ فنڈز نہ لینے کا ذکر نہیں۔ عدالت نے حال ہی میں ایک اہم فیصلہ کیا ہے، کسی بدنیتی سے بات نہیں کر رہا، عوام عدالت کا 28 جولائی کا فیصلہ بھی دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس عمر بندیال نے کہا کہ کیا کہیں لکھا ہے کہ تمام فنڈز پاکستان بھجوانا لازمی ہے جبکہ دستاویزات میں واضح لکھا ہے کہ فنڈز پاکستانیوں سے لئے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک فنڈز کی نوعیت کا تعین نہیں ہو سکا۔ ملنے والے ایک ایک فنڈ کا جائزہ لینا ہو گا۔ اکرم شیخ نے کہا کہ الیکشن کمشن کے پاس عمران خان کو نااہل قرار دینے کا اختیار نہیں اور الیکشن کمشن کا دائرہ اختیار ہی پی ٹی آئی تسلیم نہیں کرتی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ دائرہ اختیار کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کس بنیاد پر عمران خان کے سرٹیفکیٹ کو جھوٹا کہیں جبکہ درخواست گزار کی دی فہرست میں ممنوعہ ذرائع صرف غیرملکی کمپنیوں کے ہیں، معاملے کی تحقیقات عدالت خود تو نہیں کر سکتی۔ چیف جسٹس نے وکیل اکرم شیخ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی دستاویزات میں بھی کئی مسائل ہیں۔ واضح نہیں ہو رہا کہ کس نے کتنے پیسے دئیے؟ یہ بھی بتانا ہو گا کہ غیرملکیوں سے فنڈز لئے جا سکتے ہیں جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ لانے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ شیخ صاحب یہی تو اصل مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس حد تک متفق ہیں کہ غیرملکیوں سے فنڈنگ نہیں لی جا سکتی، قانون تو مقامی کمپنیوں سے فنڈز لینے کی اجازت بھی نہیں دیتا انور منصور صاحب آپ کو اس حوالے سے وضاحت دینا ہو گی، کیا معلوم یہ کمپنیاں پاکستانیوں کی ہوں یا ٹریڈ نام رکھے گئے ہوں جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ اگر پاکستانی کمپنی ہو تو بھی فنڈ ممنوعہ ہو گا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ممنوعہ فنڈ پاکستان نہیں آیا۔ چیف جسٹس نے اکرم شیخ سے سوال کیا کہ اگر کوئی خود کو پاکستانی ظاہر کرے تو کیا ہو گا جس پر وکیل حنیف عباسی نے کہا کہ فنڈ دینے والے کا نام، پتہ اور دیگر تفصیلات دینا ضروری ہیں۔ اکرم شیخ نے دلائل میں کہا کہ عمران خان کے بچے پاکستانی شہریت نہیں رکھتے جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں ان باتوں میں نہیں جانا چاہئے، یہ ذاتی معاملات ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کن شواہد پر فنڈز کو ممنوعہ قرار دیں۔ ہر چیز سے اچھی طرح آگاہ نہیں۔ ہم نے غیرمتنازعہ حقائق پر فیصلہ کرنا ہے، کس بنیاد پر عمران خان کے سرٹیفکیٹ کو جھوٹا کہہ دیں؟ اکرم شیخ نے کہا ہے کہ ممنوعہ اور لوٹی گئی رقم کوضبط کر نے کیلئے قانون موجود ہے، کیسے ہوسکتا ہے ممنوعہ فنڈ ضبط ہو جائے اورفنڈ لینے والے کو چھوڑ دیا جائے، جھوٹا سرٹیفکیٹ دینے والے کو اس کے نتائج بھگتنا ہونگے، جھوٹا سرٹیفکیٹ دینے والا صادق اور امین کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کے نتائج نااہلی ہونگے، کسی بدنیتی سے بات نہیں کر رہا، عدالت کیس سن کر جو چاہے فیصلہ کرے۔ عمران خان نے فراڈ کرکے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھایا جبکہ سپریم کورٹ کے ججز نے کہا ہے کہ پہلے ممنوعہ فنڈز کا وصول کرنا ثابت کرنا ہوگا، پی ٹی آئی کے مطابق ممنوعہ فنڈز پاکستان منتقل ہوئے ہی نہیں، فنڈز ممنوعہ ہیں یا نہیں یہ تعین بھی الیکشن کمشن کو کرنا ہے، ایسے کون سے شواہد ہیں جن کی بنیاد پر فنڈز کو ممنوعہ قرار دیں، غیرمتنازعہ شواہد ہیں تو سامنے لائیں۔