ینگ ڈاکٹرزکی مسلسل پانچویں روز ہڑتال‘ مزید 66 معطل، کل تعداد 104ہوگئی
لاہور (نیوز رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) انتظامیہ کی طرف سے برطرفیوں کا حربہ بھی ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال ختم نہ کر اسکا، ینگ ڈاکٹرز نے اپنے مطالبات کے حق میں مسلسل پانچویں روز بھی سرکاری ہسپتالوں کے ان ڈور اور آئوٹ ڈور وارڈز میں ہڑتال جاری رکھی جس سے ہزاروں مریضوںکو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ محکمہ صحت نے ہسپتالوں سے غیر حاضر رہنے والے ہڑتالی اور ہسپتالوں میں مریضوں اور سرکاری عملے پر تشدد کرنے والے مزید 14 ڈاکٹروں کو بر طرف کر دیا ہے۔پنجاب بھر میں گزشتہ روز 66 جبکہ 5 دنوں میں برطرف ہونے والے ڈاکٹروں کی تعداد 104ہوگئی جبکہ وائے ڈی اے جناح ہسپتال کے مرکزی رہنما ڈاکٹر شبیر احمد کو معطل کرتے ہوئے ان کی خدمات محکمہ صحت کے حوالے کر دی ہیں۔ڈاکٹڑ شبیر احمد کی خدمات جناح ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر سہیل ثقلین کی تحریری درخواست پر واپس لی گئی ہیں۔اسی طرح سیکرٹری صحت نجم علی شاہ نے ایم ایس عزیز بھٹی ٹیچنگ ہسپتال گجرات کی شکایت پر فوری ایکشن لیتے ہوئے اس ہسپتال کے پانچ ڈاکٹروں ،ڈاکٹر محمد طارق بٹ،ڈاکٹر کامران لطیف،ڈاکٹر فلک شیر،ڈاکٹر محمد ندیم اور ڈاکٹر احتشام الحق کو فوری طور پر ملازمت سے برخاست کر دیا ہے اسی طرح دیگر ہسپتالوں سے بھی مزید سات ڈاکٹروں کو بھی برخاست کر دیا گیا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر زبردستی ہڑتال کروانے والے اور ڈیوٹی سے غیر حاضر رہنے والے ڈاکٹروں جن کے خلاف کاروائی کی گئی ہے ان کی تعداد 66 ہو گئی ہے دوسری طرف محکمہ صحت نے ٹیچنگ ہسپتالوں کی اکیڈیمک کونسلوں کے ذریعے ملازمت سے غیر حاضر ڈاکٹروں کے والدین سے رابطہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ ادھر گشتہ روز پی آئی سی لاہور کے سینئر اور جونیئر ڈاکٹر ایک ہو گئے اور انہوں نے ہسپتال میں زبردستی ہڑتال کروائی اور ایم ایس ڈاکٹر دلاور کے دفتر کا گھیرائو کیا اور ان کے خلاف نعرے بازی کی ۔اس پر وزیر صحت سلمان رفیق سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ ہڑتالی واپس آ جائیں اگر ان کے والدین ہسپتال آ کر اپنے بچوں کا بیان حلفی دیدیں کہ آئندہ ہڑتال نہیں کریں گے تو ڈیوٹی سے غیر حاضر ڈاکٹروں کو معاف کیا جا سکتا ہے۔جناح ہسپتال میں ینگ ڈاکٹرز نے خاتون رپورٹر سے ناروا سلوک کیا جبکہ کیمرہ مین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ ہسپتالوں کی انتظامیہ کی طرف سے سینئر ڈاکٹرز کے ذریعے معاملات چلانے کی کوششیں جاری ہیں تاہم مریضوں کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث نصف سے زائد تعداد کوعلاج معالجے کی سہولیات میسر نہیں آرہیں، معمول کے آپریشن بھی ملتوی کر دئیے گئے۔ سکیورٹی انچارج ینگ ڈاکٹروں کو روکنے کی بجائے خاتون رپورٹر اور کیمرہ مین کو دھکے دے کر باہر نکالنے کا کہتا رہا۔ ینگ ڈاکٹرز کے رویے کے خلاف مریضوں کے لواحقین نے بھی شدید احتجاج کیا۔ سرکاری ہسپتالوں میں پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کر دی گئی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی برطرفی انتقامی کارروائی ہے۔ انتظامیہ کی طرف سے خواتین ڈاکٹروںکے گھروں میں فون کر کے انہیں ہراساں کیا جارہا ہے۔ اس طرح کے ہتھکنڈے ہمیں اپنے عزم سے پیچھے نہیں ہٹا سکتے۔ جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کئے جاتے ہڑتال جاری رہے گی۔ ملتان سے سٹاف رپورٹر کے مطابق پنجاب بھر کے مختلف شہروں میں مطالبات کے حق میں ینگ ڈاکٹرز کے مظاہرے جاری رہے تاہم نشتر ہسپتال ملتان میں انتظامیہ پولیس اور سینئر ڈاکٹرز کی مدد سے ہڑتال کو ناکام بنا رہی ہے۔ گزشتہ روز نشتر ہسپتال کے آؤٹ ڈور اور ایمرجنسی میں سینئر اور جونیئر ڈاکٹرز مریضوں کو چیک کرتے رہے جبکہ ینگ ڈاکٹرز ہڑتال کرانے کیلئے کوشاں رہے۔